Posts

تو اچھا کیوں نہ لگے ؟

Image
تو اچھا کیوں نہ لگے ؟ وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی شرمین عبید کی فلم ’سیونگ فیس‘ کو قلیل دورانیے کی دستاویزی فلموں کے زمرے میں انعام دیا گیا ہے جب جوتے خریدنے کے بھی پیسے نہ ہوں اور کوئی ہاشم خان سکواش کے میدان میں جھنڈا گاڑ دے اور پھر اگلے باون برس تک اس کا خاندان یہ جھنڈا نہ گرنے دے۔ جب کروڑوں خواتین ابھی صرف خواب میں ہی محوِ پرواز ہونے کی مہم جوئی کرسکیں اور کوئی شکریہ خانم جہاز اڑانے لگے اور وہ بھی آج سے تریپن برس پہلے۔ جب اسی فیصد خواتین محرم کی اجازت کے بغیرگھر سے قدم نہ نکال سکیں اور کوئی نمرہ سلیم انٹار کٹیکا پر قدم رکھ دے۔ جب پچانوے فیصد ریپ متاثرین اور ان کے ورثا مظلومیت کی چادر میں منہ چھپائے چھپائے پھریں اور کوئی مختار مائی سر اٹھا کر کھڑی ہوجائے۔ جب جمنازیم جانے کے لیے بس کا پورا کرایہ بھی نہ ہو اور کوئی نسیم حمید جنوبی ایشیا کی تیز رفتار ترین لڑکی قرار پاجائے۔ جب ملک کے اڑتیس فیصد بچے پہلی جماعت بھی مکمل کیے بغیر سکول سے ڈراپ آؤٹ ہوجائیں اور کوئی علی معین نوازش ایک ہی برس میں اکیس مضامین میں اے لیول لینے کا عالمی ری

oscar background

Image
ایک چھوٹا سا مجسمہ عارف وقار بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور فیس سیونگ نامی موجودہ دستاویزی فلم سے قبل شرمین عبید پاکستان کے طالبان بچوں پر ایک دستاویزی فلم بنا کر ایمی ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں آسکر ایوارڈ دیکھنے میں ساڑھے تیرہ انچ کا ایک دھاتی مجسمہ ہی تو ہے جس پر سونے کا ملمع کیا گیا ہے۔ لیکن قدرو قیمت میں یہ خالص سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ معروف امریکی ہدایت کار آرسن ویلز کے وارثوں نے جب ان کا آسکر ایوارڈ بیچنے کی کوشش کی تو انعام جاری کرنے والی اکیڈمی نے ان پر مقدمہ دائر کر دیا لیکن وارثوں نے مقدمہ جیت لیا اور ایوارڈ نیلام کر کے لاکھوں کمائے۔ دستاویزی فلموں کی پاکستانی ہدایت کار شرمین عبیدچنائی اپنا آسکر ایوارڈ فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں کیونکہ یہ ایوارڈ انہیں نہ تو وراثت میں ملا ہے اور نہ سفارش پر بلکہ یہ ان کی برسوں کی محنت اور جانفشانی کا نیتجہ ہے۔ آسکر ایوارڈ ہر برس سینما کے مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی پر دیا جاتا ہے اور اسے فلمی دنیا کا نوبیل انعام سمجھا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا باضابطہ نام اکیڈمی ایوارڈ ہے اور یہ

The face of the Gujarat riots meets his 'saviour'

Image
The face of the Gujarat riots meets his 'saviour'   The photographer and his subject meet to talk about the picture that became an iconic symbol of the Gujarat riots How does it feel, I ask World Press Photo award winning photographer Arko Datta, to meet the subject of his best-known picture for the first time? Ten years ago, Arko's picture of a tailor named Qutubuddin Ansari became the face of religious riots which left nearly 1,000 people, mostly Muslims, dead in Gujarat. In the picture, Mr Ansari, then 28 years old, is standing on a narrow veranda. He is wearing a light checked shirt stained with dried blood. His faintly bloodshot eyes are glazed with fear. His hands are folded in an expression of obeisance, hiding a mouth agape. It's a disturbing study of fear and helplessness. "An Indian Muslim stranded in the first floor of his house, along with a few other Muslims and surrounded by a

Phir Ussi Rahaguzar Par Shayad By Jagjit Singh Lyrics Ahmad Faraz..

Phir Ussi Rahaguzar Par Shayad By Jagjit Singh Lyrics Ahmad Faraz..

Tu Is Tarah Se Meri Zindagi Mein - Hemlata - Aap To Aise Na The

Tu Is Tarah Se Meri Zindagi Mein - Hemlata - Aap To Aise Na The

کون سا ایبٹ آباد؟

Image
کون سا ایبٹ آباد؟ وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی جب آٹھ برس پہلے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے رہنے کے لیے چھ کنال سے زائد کا قلعہ تعمیر کیا گیا ہوگا، تب کے بارے میں تو میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعمیر میرے ٹیکس کے پیسے سے کی گئی ہوگی لیکن آج میں پُریقین ہوں کہ اس کے انہدام کے اخراجات میں میرا ٹیکس بھی شامل ہے۔ تب بھی مجھے کسی نے نہیں بتایا، اب بھی مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا۔ اسامہ کی لاش سمندر کی مچھلیوں کے حوالے کرنے اور رہائش گاہ منہدم کرنے کے پیچھے غالباً ایک ہی سوچ ہے کہ لوگ اس بارے میں مزید نہ سوچیں لیکن کوئی تو اس پلاٹ پر دوبارہ گھر بنائے گا، کوئی تو کھیتی باڑی کرے گا۔ ایڈریس تو وہی رہے گا! ’دائیں سے بائیں تیسری گلی میں آجائیں جہاں پہلے اسامہ کا مکان تھا۔‘ دائیں سے بائیں تیسری گلی میں آجائیں جہاں پہلے اُسامہ بن لادن کا مکان تھا۔ پاکستان کی درسی کتابوں میں انیس سو اکہتر ڈھائی سطر میں قید کر دیا گیا تو کیا یہ سال بھی کیلنڈر سے غائب ہوگیا؟ بھٹو کی پھانسی گھاٹ ایک بڑے سے سرکاری باغ میں گم کردی گئی تو کیا لوگ چار اپریل کو

sindh missing person's reporter... if i killed

Image
’اگر میں مارا جاؤں تو‘ حسن مجتبیٰ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک پاکستان میں لاپتہ لوگوں کی تعداد میں گزشتہ سالوں میں اضافہ ہوا ہے ’اب میں اپنا سر بچا کر بھیس بدل کر رپورٹنگ کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ برائے مہربانی میرا یہ میسیج ڈیلیٹ مت کیجیے گا اور ریکارڈ پر رکھنا اگر میں مارا جاؤں تو۔‘ یہ الفاظ ہیں اس اخباری اور ٹی وی رپورٹر کے جس نے ایک گمشدہ شخص کے متعلق رپوٹنگ کی اور اب وہ بھاگتی ریل کے پیچھے ہے۔ گزشتہ منگل کو پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر میرپور خاص کے قریب میرپور خاص - عمر کوٹ روڈ پر ایک شخص شدید زخمی حالت میں بے ہوش ملا تھا۔ اس شخص کے دونوں جبڑے ٹوٹے ہوئے تھے جبکہ ایک جبڑے پر پلاسٹر بھی چڑھا ہوا تھا۔ اس شخص کا نام بشیر آریسر ہے۔ بشیر آریسر ان گمشدہ سندھی قوم پرستوں میں سے ایک ہے جن کی آزادی کے لیے ان کے اہلِ خانہ یا لواحقین سپریم کورٹ کے سامنے ان کی رہائي کی لیے احتجاجی کیمپ لگاکر مظاہرے کر رہے تھے۔ لیکن جس وقت بشیر آریسر کے گھر والے اسلام آباد میں مظاہرے کر رہے تھے انہیں منگل کی رات بتایا گیا کہ کئي ماہ قبل مبینہ طور پر انٹیلیجنس