oscar background


ایک چھوٹا سا مجسمہ










    فیس سیونگ نامی موجودہ دستاویزی فلم سے قبل شرمین عبید پاکستان کے طالبان بچوں پر ایک دستاویزی فلم بنا کر ایمی ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں
    آسکر ایوارڈ دیکھنے میں ساڑھے تیرہ انچ کا ایک دھاتی مجسمہ ہی تو ہے جس پر سونے کا ملمع کیا گیا ہے۔
    لیکن قدرو قیمت میں یہ خالص سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
    معروف امریکی ہدایت کار آرسن ویلز کے وارثوں نے جب ان کا آسکر ایوارڈ بیچنے کی کوشش کی تو انعام جاری کرنے والی اکیڈمی نے ان پر مقدمہ دائر کر دیا لیکن وارثوں نے مقدمہ جیت لیا اور ایوارڈ نیلام کر کے لاکھوں کمائے۔
    دستاویزی فلموں کی پاکستانی ہدایت کار شرمین عبیدچنائی اپنا آسکر ایوارڈ فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں کیونکہ یہ ایوارڈ انہیں نہ تو وراثت میں ملا ہے اور نہ سفارش پر بلکہ یہ ان کی برسوں کی محنت اور جانفشانی کا نیتجہ ہے۔
    آسکر ایوارڈ ہر برس سینما کے مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی پر دیا جاتا ہے اور اسے فلمی دنیا کا نوبیل انعام سمجھا جاتا ہے۔
    اس ایوارڈ کا باضابطہ نام اکیڈمی ایوارڈ ہے اور یہ امریکہ کی Academy of Motion Picture Arts and Sciences کی طرف سے پیش کیا جاتاہے۔
    اس ایوارڈ کا آغاز 1929میں ہوا تھا اور پہلے برس 1927 اور 1928دو برسوں کی فلموں کو آٹھ انعامات دیے گئے۔آغاز سے اب تک کوئی تین ہزار فنکار اور ٹکنیشن یہ انعام حاصل کر چکے ہیں جن میں تین سو سے زیادہ اداکار تھے۔

    اس ایوارڈ کا باضابطہ نام اکیڈمی ایوارڈ ہے اور یہ امریکہ کی Academy of Motion Picture Arts and Sciences کی طرف سے پیش کیا جاتاہے
    ایوارڈ کے مستحق فن کاروں کا انتخاب اکیڈمی کے وہ چھ ہزار ارکان کرتے ہیں جنہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔
    شروع کے برسوں میں سکرپٹ رائٹنگ، ساونڈ ایڈٹینگ، میک اپ، کاسٹیوم ڈیزائن، غیر انگریزی فلم اور ڈاکومنٹری کے لیے کوئی ایوارڈ موجود نہیں تھا۔
    مختصر دورانئیے کی دستاویزی فلموں پر ایوارڈ ملنے کا سلسلہ 1941میں شروع ہوا لیکن پاکستان کو یہ انعام حاصل کرنے کے لیے سنہ 2012تک انتظار کرنا پڑا۔
    جن لوگوں کا خیال ہے کہ شرمین عبید کو خاتون ہونے کے باعث رعایتی نمبر دیے گئے ہیں یا جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ انعام پاکستان میں محض آزاد خیال قوتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے جاری کر دیا گیا ہے وہ اگر ایک نگاہ شرمین عبید کے سابقہ کارناموں پر ڈالیں تو یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی۔
    فیس سیونگ نامی موجودہ دستاویزی فلم سے قبل وہ پاکستان کے طالبان بچوں پر ایک دستاویزی فلم بنا کر ایمی ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں۔
    انہوں نے افغانستان کے قلب میں جا کر خفیہ فلم بندی کی۔ وہ افغانی برقعہ پہن کر اور بغل میں کیمرہ چھپا کر انتہائی دشوار گزار منزلیں طے کرتی ہوئی ایسی ایسی خطرناک جگہوں تک جاپہنچیں جہاں سے واپسی کی خود انہیں بھی امید نہیں رہی تھی۔
    لیکن یہ ساری مشقت آخر رنگ لائی اور انہیں دستاویزی فلم سازی کی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہوگیا۔
    صحافت اور ڈاکومنڑی پروڈکشن کے میدان میں درجن بھر سے زیادہ ایوارڈز حاصل کرنے کے بعد اب انہوں نے وہ ایوارڈ بھی حاصل کرلیا ہے جو کسی بھی فلم ساز کا خواب ہو سکتا ہے۔

    بھارت آسکر کی دوڑ میں

    بھارت سنہ انیس سو ستاون میں اس دوڈ میں شامل ہوا جب ہدایت کار محبوب کی فلم مدر انڈیا کو غیر ملکی زبان کے زمرے میں نام زد کیا گیا لیکن وہ ایوارڈ حاصل نہ کر سکی۔ اس سے اگلے برس بمل رائے کی فلم مدھومتی اور اس سے اگلے برس ستیہ جیت رے کی فلم آپور سنسار نام زد ہوئیں لیکن وہ بھی کوئی ایوارڈ نہ حاصل کر سکیں۔
    ظاہر ہے کہ اس خواب کو دیکھنے والے سب سے زیادہ بھارت میں پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ دنیا کا سب سے بڑا فلمی مرکز ہے۔
    بھارت سنہ انیس سو ستاون میں اس دوڈ میں شامل ہوا جب ہدایت کار محبوب کی فلم مدر انڈیا کو غیر ملکی زبان کے زمرے میں نامزد کیا گیا لیکن وہ ایوارڈ حاصل نہ کر سکی۔ اس سے اگلے برس بمل رائے کی فلم مدھومتی اور اس سے اگلے برس ستیہ جیت رے کی فلم آپور سنسار نام زد ہوئیں لیکن وہ بھی کوئی ایوارڈ نہ حاصل کر سکیں۔
    اس وقت سے اب تک غیر ملکی زبان کے زمرے میں بھارت کی45 کے قریب فلمیں نامزد ہو چکی ہیں لیکن کسی کو بھی ایوارڈ نہیں مل سکا۔
    سنہ 2008میں ممبئی میں بننے والی انگریزی زبان کی فلم سلم ڈاگ ملینئر آٹھ آسکر ایوارڈز کی مستحق ٹھہری لیکن وہ بھارتی نہیں بلکہ برطانوی فلم تھی۔
    اس لحاظ سے شرمین عبیدچنائی کا ایوارڈ سارے جنوبی ایشا کی سطح پر ان کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

    With Courtesy of  BBC

    Comments

    Popular posts from this blog

    sql joins

    The dark web: Guns and drugs for sale on the internet's secret black market

    dayal sehrai chap chap khe lgn, ling ling khe lgn