تو اچھا کیوں نہ لگے ؟
تو اچھا کیوں نہ لگے ؟
جب جوتے خریدنے کے بھی پیسے نہ ہوں اور کوئی ہاشم خان سکواش کے میدان میں جھنڈا گاڑ دے اور پھر اگلے باون برس تک اس کا خاندان یہ جھنڈا نہ گرنے دے۔
جب کروڑوں خواتین ابھی صرف خواب میں ہی محوِ پرواز ہونے کی مہم جوئی کرسکیں اور کوئی شکریہ خانم جہاز اڑانے لگے اور وہ بھی آج سے تریپن برس پہلے۔جب پچانوے فیصد ریپ متاثرین اور ان کے ورثا مظلومیت کی چادر میں منہ چھپائے چھپائے پھریں اور کوئی مختار مائی سر اٹھا کر کھڑی ہوجائے۔
جب جمنازیم جانے کے لیے بس کا پورا کرایہ بھی نہ ہو اور کوئی نسیم حمید جنوبی ایشیا کی تیز رفتار ترین لڑکی قرار پاجائے۔
جب ملک کے اڑتیس فیصد بچے پہلی جماعت بھی مکمل کیے بغیر سکول سے ڈراپ آؤٹ ہوجائیں اور کوئی علی معین نوازش ایک ہی برس میں اکیس مضامین میں اے لیول لینے کا عالمی ریکارڈ قائم کردے، کوئی ولید امجد ملک اقوامِ متحدہ کے تحت انسانی حقوق پر مضمون نگاری کے عالمی مقابلے میں اول آجائے۔
جہاں سائنس کی تعلیمی لیبارٹریوں میں ایک ٹیکنیشن کے بھی لالے پڑے ہوں وہاں کا کوئی بوڑھا عبدالسلام فزکس میں نوبیل پرائز اڑا لے جائے اور کوئی نو سالہ ارفع کریم دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سوفٹ کمپیوٹر انجینیر کے طور پر ابھر آئے۔
جہاں نابیناؤں کے لیے نہ تعلیم کی ضمانت ہو اور نہ ہی روزگار کی وہاں کے نابیناؤں کی کرکٹ ٹیم ایک نہیں دو ورلڈ کپ جیت جائے۔
جہاں اوپر سے نیچے تک کچھ لے دیئے بغیر سرمایہ کاری کا تصور ہی محال ہو وہاں کا کوئی اسد جمال فوربس میگزین کی ٹاپ ہنڈرڈ گلوبل وینچر کیپٹلسٹ لسٹ میں آٹھویں نمبر پر آجائے۔
جہاں موسیقی پر سر دھنا جائے مگر موسیقار کو مراثی کی نظر سے دیکھنے کا چلن ہو وہاں کا کوئی نصرت فتح علی خان کولمبیا یونیورسٹی میں میوزیکالوجی کے اعزازی استاد کے طور پر لیکچر دے اور مشرق و مغرب کی فیوژن موسیقی کے روشن ترین چہروں کی گنتی میں آجائے۔
جہاں رقص کی تعلیم کو لوز کیریکٹر کی پہلی سیڑھی بتایا جائے۔ ساڑھے سات سو سینما پونے دو سو سینماؤں میں سکڑ جائیں۔ سینما بینی عام آدمی کی جیبی دسترس سے باہر ہوجائے۔ فلمی سٹوڈیوز گودام بن جائیں۔ اداکار و ہدایت کار نگار ایوارڈ اور پرائڈ آف پرفارمنس ملنے کو بھی معجزہ جانیں۔ فن کار پولیس چھاپوں سے بچنے کے لیے دیواریں کود کر ٹانگیں تڑوالیں اور جب ہنسانے اور رلانے سے قاصر ہوجائیں تو بڑھاپے میں کسمپرسی کی حالت میں سینے پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دھرے دھرے بھیک مانگنے کے مرحلے تک آجائیں اور ایک دن مرجائیں اور مرنے کے بعد صرف ایک دن کی اخباری اور تصویری زندگی پا کر امر ہوجائیں۔
جہاں رونا معمول کی بات سمجھی جائے اور مسکرانا خطرے سے خالی نہ ہو۔
ایسے ماحول میں کوئی شرمین عبید چنائے بسنت کے موسم میں سیونگ فیس کے ساتھ چھم سے آسکر کے سٹیج پر آجائے تو اچھا کیوں نہ لگے ؟
With Courtesy of BBC
Comments
Post a Comment