چوہدری شجاعت، پاکستانی سیاست کا ایک گاڈ فادر


چوہدری شجاعت، پاکستانی سیاست کا ایک گاڈ فادر

Published on 11. Nov, 2011
چوہدری شجاعت، پاکستانی سیاست کا ایک گاڈ فادر
رؤف کلاسرا کی شہرہ آفاق کتاب “ایک سیاست، کئی کہانیاں”، پاکستان میں فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ اسے پاکستان میں سیاسی اور صحافی ناقدین نے دور حاضر کی سیاسی بائیبل قرار دیا۔ اس کتاب کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ پاکستانی سیاست کی غلام گردشوں اور سازشوں کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے جو کہ ایک کہانی کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ پاکستان سے باہر رہنے والے اپنے قارئین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب میں دیے گئے کل سوالہ ابواب میں سے چند ٹاپ سٹوری آن لائن میں پیش کیے جارہے ہیں۔ ایڈیٹر
__________________________________________
مجھے چوہدری شجاعت حسین سے ملنے کا شوق اس وقت ہی پیدا ہو گیا تھا جب اڈیالہ جیل میں قید یوسف رضا گیلانی اور اسلام آباد کے سب سے مہنگے ترین علاقے ای سیون سیکٹر میں واقع اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بات بات پر مسکراتے اور قہقہے لگاتے سید مشاہد حسین نے مجھے ایک ہی بات بتائی کہ جب ان دونوں کو 12 اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیا گیا تو جو شخص ان کے گھر سب سے پہلے اپنی جیبوں میں پیسے ڈال کر ان کے بیوی بچوں کی خیریت دریافت کرنے گیا تھا وہ اور کوئی نہیں چوہدری شجاعت تھا۔
پتہ نہیں کیوں میرے ذہن میں چوہدری شجاعت کا امیج ایک ایسے سیاسی گاڈ فادر کا سا بن گیا تھا جو مشکل وقت میں اپنے دوستوں اور دشمنوں کی مدد کرنے کیلئے ہر وقت تیار تھا۔ شاید چوہدری صاحب بھی ماریو پوزو کے ناول گاڈ فادر کے ڈان کوریلیون کی طرح اپنے اندر ایک ایسی جبلت لے کر پیدا ہوئے تھے جس کو اس بات کا احساس تھا کہ اپنے سیاسی مخالفین کو جیتنے کا سب سے بہتر موقع وہ تھا جب وہ کسی بہت بڑی مصیبت کا شکار تھے۔ کہنے کو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہیں یوسف رضا گیلانی کے گھر والوں کی مصیبتوں کا اس لیے بھی علم تھا کیونکہ وہ خود پرویز الٰہی کے ساتھ اسی اڈیالہ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھا چکے تھے۔ یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ جنرل مشرف کے ساتھ مل کر تو انہوں نے گیلانی کو جیل بھجوایا تھا لہذا ان سے بہتر کون جانتا تھا کہ ان کے قیدی کے گھرمیں اب پیسوں کی کمی تھی۔
____________________________________________
یوسف رضا گیلانی، ایک سیاست کئی کہانیاں: رؤف کلاسرا

____________________________________________
جب 23 اپریل 2003ء کو میں ایف ایٹ مرکز میں واقع چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ کے باہر پہنچا تو وہاں قیمتی گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر کسی بھی شخص کا پہلا تاثر یہی ہوتا کہ اس ملک کا اصل حکمران جنرل مشرف نہیں بلکہ اس گھر میں رہتا تھا۔ بہت بڑے ڈرائنگ روم میں ہر قسم کے سیاسی چہرے دیکھے جا سکتے تھے وہاں کوئی وزیر بننا چاہ رہا تھا تو کوئی پارلیمانی سیکرٹری اور کچھ نہیں تو اسٹینڈنگ کمیٹی کا چیئرمین ہی لگ جائے۔ چوہدری شجاعت کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ہر پانچ منٹ بعد اس سیاسی مجمعے میں سے کوئی اپنا منہ آگے نکال کر اپنے نتھنے پھلائے زور سے اپوزیشن کے خلاف تقریر کرنا شروع ہو جاتا کہ بھلا جنرل مشرف کے لیگل فریم ورک آرڈر کی مخالفت کرنے کا کیا تُک تھا۔
میں خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا ان سیاسی لوگوں کی مضحکہ خیز باتیں سن رہا تھا کہ کسی نے آ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مجھے اپنے ساتھ لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا اور بولا کہ میں چوہدری شجاعت کا انتظار کروں۔ ابھی مجھے بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور چوہدری شجاعت اندر داخل ہوئے۔ میں کھڑا ہوا تو وہ بڑی عزت و احترام سے ملے۔ ان کا خیال تھا کہ میں شاید موجودہ سیاسی صورتحال پر ان کا کوئی روٹین میں انٹرویو کرنا چاہ رہا تھا۔ میں مسکرایا اور انہیں بتایا کہ چوہدری صاحب یہ انٹرویو تو چلتے رہتے ہیں اور مجھ سے بہت بہتر صحافی یہ کام زیادہ اچھے طریقے سے کر رہے تھے۔ میرے ذہن میں کچھ اور بات تھی۔میرے خیال میں لوگ جاننا چاہتے ہوں گے کہ آخر آپ ایک عام سیاستدان سے ایک سیاسی گاڈ فادر کیسے بنے۔ وہ شخص جس کے گھر کو 12 اکتوبر کی رات فوج نے لاہور میں گھیرے میں لے لیا تھا اور انتہائی ذلت آمیز انداز میں گھر کے مکینوں کی تلاشی لی گئی تھی وہ بھلا کیسے آج اس پوزیشن میں آ گیا تھا کہ جنرل مشرف جیسا بندہ اس سے مشورہ کیے بغیر پانی بھی نہیں پیتا تھا۔
چوہدری شجاعت مسکرائے اور انہوں نے اپنے بارے میں گاڈ فادر کی ٹرم سن کر کوئی احتجاج یا بات نہیں کی۔ مجھے پتہ نہیں کہ انہیں گاڈ فادر کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا یا پھر انہوں نے اس لقب کو اپنے لیے واقعی ایک اعزاز سمجھا۔
چوہدری شجاعت تھوڑی دیر کیلئے چپ ہوئے اور بولے کہ اس کا مطلب ہے آپ کو خصوصی ٹائم دینا پڑے گا اور یہ گفتگو تو پھر یہاں بیٹھ کر نہیں ہو سکتی تو کیا خیال ہے کل سے کسی اور جگہ نہ ملا جائے۔ ابھی میں کوئی جواب دینے ہی والا تھا کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے ایک باغی ایم این اے رضا حیات ہراج کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ مجھے نہیں پہچانتے تھے لہذا انہوں نے کھل کر چوہدری شجاعت کو بتایا کہ کیسے پیپلز پارٹی والوں کو ڈنڈا دینا تھا۔ چوہدری شجاعت نے ہاں ہوں میں جواب دیا۔ اگلے دن جب میری ملاقات چوہدری شجاعت سے منسٹرز انکلیو میں رہائش پذیر وزیر صحت نصیر خان کے گھر پر ہوئی تو پھر چوہدری شجاعت نے اپنی زندگی کے اہم رازوں سے پردہ اٹھانا شروع کیا اور ایک نئی کہانی شروع ہوئی۔
چوہدری شجاعت نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ بھی سیاست کے میدان میں داخل ہوں گے۔ ان کے باپ چوہدری ظہور الٰہی اور ان کے خاندان کی جتنی بھی فیکٹریاں تھیں وہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء میں نجکاری کے نام پر اپنے قبضے میں لے لی تھیں۔ یوں بھٹو اور چوہدری خاندان میں دشمنی کی بنیاد پہلے ہی پڑ چکی تھی۔ جب جنرل ضیاء نے بھٹو کا تختہ الٹا تو چوہدری خاندان نے آگے بڑھ کر اس فوجی ڈکٹیٹر کو اپنے گلے سے لگا لیا کیونکہ دشمن کا دشمن ہمیشہ آپ کا دوست ہوتا ہے۔ ان تینوں بھٹو، ضیاء اور چوہدری ظہور الٰہی کو پتہ نہیں تھا کہ بہت جلد ان کے خاندانوں میں ایک ایسی مستقل دشمنی کی بنیاد پڑنے والی تھی جس کی بازگشت 27 سال بعد بھی اکتوبر 2007ء میں اس وقت سنی گئی جب بینظیر بھٹو نے یہ الزام لگایا کہ چوہدری پرویز الٰہی 18 اکتوبر کی رات کراچی میں ہونے والے بم دھماکے میں ملوث تھے جس میں ڈیڑھ سو پیپلز پارٹی کا وہ ورکر مارا گیا جو بھٹو کی بیٹی کا دس سال کی جلاوطنی کے بعد ا ستقبا ل کرنے آیا ہوا تھا۔ بے نظیر کے بقول قاتلوں کو پانچ لاکھ ڈالرز بھی ادا کیے گئے تھے۔ چوہدریوں نے اس الزام کی ہمیشہ تردید کی۔ اگرچہ ماضی میں چوہدری شجاعت نے ان دونوں خاندانوں کے درمیان دشمنی کم کرنے کی کوشش ضرور کی جب انہوں نے نواز شریف کی حکومت میں وزیر داخلہ کے طور پر جیل میں بند آصف زرداری کو سہالہ ریسٹ ہاؤس راولپنڈی میں ٹھہرایا اور بینظیر بھٹو کو ان سے ملاقاتوں کی اجازت دی۔ اس پر چوہدری شجاعت کو اس وقت کے صدر غلام اسحق خان کی کڑوی باتیں بھی سننی پڑی تھیں جنہوں نے اپنے مخصوص پشتو اسٹائل میں انہیں یہ طعنہ مارا تھا کہ تم نے ان میاں بیوی کو ہنی مون منانے کیلئے ریسٹ ہاؤس دیا ہوا تھا۔
پنجاب اور سندھ کے دو بڑے سیاسی خاندانوں کی دشمنی تو اس حد تک چلی گئی تھی کہ جب بھٹو کو پھانسی دی جا رہی تھی اس وقت یہ خبر باہر نکلی تھی کہ چوہدری ظہور الٰہی نے جنرل ضیاء سے وہ قلم مانگ کر ایک یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھ لیا تھا جس سے اس فوجی جنرل نے بھٹو کے پھانسی نامے پر دستخط کیے تھے۔ شاید اسی وقت ہی الذوالفقار تنظیم کے چند نوجوانوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ چوہدری ظہور الٰہی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اور یوں انہیں گولی مار دی گئی۔
اس گفتگو کے درمیان میں نے اچانک چوہدری شجاعت سے پوچھ لیا کہ کیا وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے سے ہماری سیاست پر ایک خونی رنگ چڑھ گیا تھا جو آج تک نہیں اتر سکا تھا۔
چوہدری شجاعت نے اپنی آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ مجھے بڑے غور سے دیکھا اور ان کے جواب سے یہ بڑا واضع تھا کہ وہ ابھی بھی بیس برس گزرنے کے بعد اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اگرچہ وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے ان کے اپنے اندر سے تلخی، غصہ اور غم کسی حد تک کم ہو گیا تھا۔
یہ بتانے کیلئے کہ ان کے اپنے اندر کتنی تبدیلی آئی تھی انہوں نے پھر مجھے یہ واقعہ سنایا کہ کیسے انہوں نے آصف زرداری کو جیل کے اندر سہولتیں فراہم کی تھیں تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ چوہدری ظہور الٰہی کا بدلہ بھٹو کے داماد سے لینا چاہ رہے تھے۔ جب اس بات کا پتہ اسحاق خان کو چلا تو انہوں نے بڑے غصے میں انہیں ایوان صدر بلایا اور دباؤ ڈالا کہ وہ آصف زرداری کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔ تاہم گجرات کے چوہدری نے غصے سے تلملاتے صوابی کے پٹھان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا جس سے وہ ان سے شدید ناراض ہوئے۔ جب تک چوہدری شجاعت وزیر داخلہ رہے وہ ہر دفعہ آصف زرداری کو کراچی سے لا کر سہالہ ریسٹ ہاؤس ٹھہراتے جہاں بینظیر بھٹو ان سے آسانی سے مل سکتی تھیں۔
تاہم چوہدری شجاعت کو اس وقت بڑی تکلیف ہوئی جب بینظیر بھٹو 1993ء میں وزیراعظم بنیں تو اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے سیکرٹری داخلہ جمشید برکی کو بلایا اور انہیں پہلا حکم یہی دیا کہ چوہدری شجاعت کے خلاف ڈھونڈ کر کچھ ایسے کیسز بنائے جائیں جن پر انہیں جیل میں ڈالا جا سکے۔ جمشید برکی نے جواب دیا کہ چوہدری شجاعت ان کی زندگی کے ان چند بہترین وزیروں میں سے ایک تھے جن کے ساتھ انہوں نے کام کیا تھا۔ لیکن میں نے شجاعت سے پوچھا کہ انہوں نے مجھے ابھی تک یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ سیاست میں کیسے داخل ہوئے تھے۔
وہ بولے کہ جب بھٹو صاحب کے دور میں ان کا تمام کاروبار حکومتی قبضے میں لے لیا گیا اور اس کے بعد چوہدری ظہور الٰہی کو بھی گولی مار دی گئی تو پھر انہوں نے سیاست کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ سے اس کا آغاز ہوا۔ میں نے کہا کہ چوہدری صاحب اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اپ نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ان سے سے غیر قانونی فائدے اٹھائے تھے اور اپنے کاروبار کو دوبارہ نئے سرے سے جمایا تھا۔
چوہدری شجاعت نے سر کو بڑے زور سے جھٹکا دیا اور بولے کہ اگر ہم نے کرپشن کی ہوتی تو پھر ہمارے گروپ کو کبھی بھی مسلسل تین سالوں تک بیسٹ ایکسپورٹ کی ٹرافی نہ ملتی۔ یہ ٹرافی سیاسی دباؤ یا رشوت دے کر حاصل نہیں کی جا سکتی تھی اور سب سے بڑھ کر انہوں نے یہ کاروبار نیشنلائزیشن کے بعد دھیرے دھیرے ایک نئے سرے سے جمایا تھا۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے چوہدری شجاعت نے مجھے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ایک خط بھی دکھایا جس میں یہ واضع طور پر لکھا ہوا تھا کہ اگر چوہدری شجاعت کے خاندان کا سیاست سے تعلق نہ ہوتا تو وہ بینکوں سے زیادہ بہتر طریقے سے اپنے قرضے ری شیڈول کرا سکتے تھے۔ چوہدری شجاعت نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے باپ کے قتل نے انہیں مجبور کر دیا تھا کہ وہ جنرل ضیاء کے ساتھ مل جائیں۔ شجاعت کے بقول انہوں نے ایک شعوری کوشش کی کہ وہ بھٹو خاندان کے ساتھ اپنی ذاتی دشمنی کو اگر ختم نہیں تو کم کرنے کی کوشش ضرور کریں ۔ تاہم جب بھی پیپلز پارٹی حکومت میں آئی تو ان کے ساتھ خاصی سختی سے پیش آیا گیا۔ انہیں پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کے دور میں گرفتار کیا گیا اور گھر نظر بند کرنے کے بجائے انہیں اڈیالہ جیل بھیجا گیا۔ انہیں جیل کے ایک ایسے سیل میں رکھا گیا جس میں بنیادی سہولتیں بھی نہیں تھی اور بعد میں اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے اپنے لیے وہاں مناسب انتظامات کرائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی سیل میں آصف علی زرداری اور نواز شریف بھی قید رہے اور جو سہولتیں چوہدری شجاعت نے وہاں اپنے خرچے سے فراہم کرائی تھیں ان سے وہ بھی فائدہ اٹھاتے رہے۔ جب وہ اڈیالہ جیل میں گرفتار تھے تو سابق گورنر پنجاب خواجہ طارق رحیم آصف زرداری کا ایک پیغام لے کر ان کے پاس آئے کہ آپ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں اور اس کے بدلے میں پورا پنجاب ہم سے لے لو۔ انٹیلی جنس بیورو کا ایک افسر بھی ان سے ملنے کے لیے آتا تھا جو یہ کہتا کہ آپ اپنی پارٹی کے اندر ایک فارورڈ بلاک بنائیں۔ چوہدری شجاعت کو یہ بھی پیغام دیا گیا کہ آصف زرداری ان سے جیل میں آ کر ملاقات کر کے ڈیل کرنے کو تیار تھے لیکن شجاعت اور پرویز الٰہی نے پیپلز پارٹی کی حکومت سے جیل میں بیٹھ کر ڈیل کرنے سے انکار کیا۔
اس پر میں نے شجاعت سے پوچھ لیا اگر وہ نواز شریف کے اتنے وفادار تھے تو انہوں نے 12 اکتوبر 1999ء کے بعد نواز شریف کا ساتھ چھوڑ کر جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کیوں کر لی تھی۔ شجاعت نے بڑی سختی سے میری اس بات کو مسترد کیا کہ نواز شریف کے دور اقتدار میں مزے لینے کے بعد انہوں نے برے دنوں میں ان کا ساتھ چھوڑ کر جنرل مشرف سے ہاتھ ملا لیا تھا۔
ان کے بقول نواز شریف نے جیل سے ہی انہیں میاں اظہر، اعجاز الحق اور چند دوسرے لوگوں کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ اس لیے یہ کہنا بڑا غلط تھا کہ انہوں نے پارٹی چھوڑی تھی بلکہ حقیقت یہ تھی کہ انہیں پارٹی سے نکالا گیا تھا۔ شجاعت نے الٹا مجھ سے سوال کیا کہ لوگ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ دراصل ان سب کو تو دھوکہ نواز شریف نے دیا تھا جو ایک فوجی جنرل سے ڈیل کر کے ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
اپنے اور نواز شریف کے درمیان اندرونی اختلافات کی کہانی سناتے ہوئے شجاعت نے کہا کہ دراصل 1997ء کے بھاری مینڈیٹ نے ان کی شخصیت پر بڑا برا اثر ڈالا تھا۔ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ کوئی بہت بڑا کام کرنے کیلئے پیدا ہوئے تھے اور اس چکر میں انہوں نے ایسے کام شروع کیے تھے جن کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلنا تھا۔ جب 1997ء کے الیکشن کے فوراً بعد ایک مقامی ہوٹل میں پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہوئی تو شجاعت وہ پہلا شخص تھا جس نے کھڑے ہو کر نواز شریف کو یہ بات کہی تھی کہ وہ تین باتوں سے ہوشیار رہے۔ تکبر، منافقت اور خوشامدی۔ شجاعت نے بھاری دل سے کہا کہ ان کے مشورے کے برعکس نواز شریف نے ان تینوں برائیوں کو اپنے گلے سے لگایا۔ ان کے بقول نواز شریف کی سب لوگ ان کی انکساری اور اچھی شخصیت کی وجہ سے بڑا پیار اور احترام کرتے تھے۔ تاہم جب وہ دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو وہ مکمل تبدیل ہو چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نومبر 1998ء میں نواز شریف کی سربراہی میں ایک میٹنگ اٹینڈ کرنے کے بعد شجاعت نے چوہدری پرویز الٰہی کو بتایا تھا کہ پی ایم ایل نواز کی حکومت زیادہ دیر تک نہیں چلے گی۔
میرے تجسس پر چوہدری شجاعت نے انکشاف کیا کہ اس میٹنگ کے شروع ہونے سے پہلے نواز شریف نے وہاں موجود تمام لوگوں سے جن میں انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہان موجود تھے قرآن پر حلف لیا تھا کہ وہ اس میٹنگ کی کسی بات کو باہر نہیں بتائیں گے۔ اس میٹنگ میں بہت ہی خوفناک قسم کے فیصلے کیے گئے تھے۔میں بڑا حیران ہوا کہ بھلا ایسے وہ کون سے فیصلے تھے جنہوں نے چوہدری شجاعت حسین جیسے بندے کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چوہدری شجاعت کچھ دیر سوچتے رہے کہ وہ مجھے بتائیں یا نہ بتائیں۔ خاصی دیر بعد انہوں نے محض ایک اشارہ دیا کہ اس میٹنگ کے فوراً بعد پنجاب اور کراچی میں ماورائے عدالت قتل ہونا شروع ہو گئے تھے۔
شجاعت جو اس وقت وزیر داخلہ تھے ان کے بقول انہوں نے غیر قانونی فیصلوں کے خلاف مزاحمت کی تھی ان کا یہ خیال تھا کہ چاہے مجرم ہی سہی اس کو بھی عدالت میں اپنے آپ کو دفاع کرنے کا حق دینا چاہیے۔ شجاعت کو اس بات کا دکھ تھا کہ دو حافظ قرآن کو جیل سے نکال کر ایک جعلی پولیس مقابلے میں گولی مار دی گئی تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ چوہدری شجاعت ان فیصلوں کے خلاف تھے لیکن ان کی وزارت ان فیصلوں کی مانٹیرنگ بھی کر رہی تھی۔ جب میں نے چوہدری شجاعت کی آواز میں افسردگی محسوس کی تو پھر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ اگر وہ سارے فیصلے انہیں غلط لگتے تھے تو انہوں نے بطور احتجاج وزارت داخلہ سے استعفیٰ کیوں نہیں دے دیا تھا۔
چوہدری شجاعت نے سیدھا میری آنکھوں میں دیکھا اور بولے رؤف صاحب یہ ان مسائل کا حل نہیں تھا۔ میں نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگز میں واحد شخص ہوتا تھا جو تکبر سے بھرے نواز شریف کے اس طرح کے غلط فیصلوں کے خلاف مزاحمت کرتا تھا۔ یہ میری وجہ سے ہی ہوا کہ کئی دفعہ کچھ اس طرح کے فیصلے نہ ہو سکے جن سے ان کی اپنی حکومت اور ملک کو شدید نقصان ہوتا۔ شجاعت کے بقول جب نواز شریف ملک میں انٹی ٹیرارسٹ عدالتیں قائم کرنا چاہ رہے تھے اور یہ بات کیبنٹ کے سامنے لائی گئی تو انہوں نے اس کو سارے ایجنڈے سے ہی ہٹا دیا۔ تاہم نواز شریف ڈٹے رہے اور انہوں نے اگلی کیبنٹ میٹنگ میں اس کی منظوری لے لی۔ اس پر چوہدری شجاعت نے نواز شریف کو خبردار کیا تھا کہ ایک دن ہم سب کو ان عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا لہذا بہتر ہے کہ ہم ان کے قیام سے گریز کریں۔ اور پھر ایک دن جنرل مشرف نے نواز شریف کی بنائی ہوئی اسی ایک عدالت سے انہیں عمر قید دی تھی۔
شجاعت کے بقول 12 اکتوبر کی بغاوت سے پہلے نواز شریف جو خوفناک فیصلہ کرنا چاہ رہے تھے وہ یہ تھا کہ جو بھی سر عام اسلحہ کی نمائش کرے گا اسے سزائے موت دی جائے گی۔ اس کام کیلئے انہوں نے فوجیوں کو استعمال کرنا تھا اور 14 اکتوبر 1999ء کو ڈیفنس کی کیبنٹ کمیٹی کی میٹنگ طلب کر لی گئی تھی جس میں یہ فیصلہ کیا جانا تھا۔ تاہم دو دن پہلے ہی ان کا اپنا تختہ الٹ دیا گیا۔ شجاعت کے ذمے ایک کام لگایا گیا تھا کہ وہ اس میٹنگ میں تمام ملٹری کمانڈروں کو اس منصوبے کے بارے میں بریف کریں گے اور آرمی سے کہا جائے گا کہ وہ نہ صرف اس معاملے میں ان سے تعاون کریں بلکہ سر عام اسلحہ کی نمائش کرنے والے لوگوں کو پکڑ کر ان کو سزائیں دی جائیں۔ شروع میں چوہدری شجاعت نے اس پلان کی بڑی مخالفت کی۔ ان کے بقول نہ صرف اس قانون کا غلط استعمال ہوگا بلکہ یہ حکومت کیلئے بھی بہت مشکلات پیدا کرے گا۔ تاہم شجاعت کو کہا گیا کہ وہ 12 اکتوبر کو یہ سارا پلان کیبنٹ کمیٹی برائے دفاع میں پیش کرنے سے پہلے وزیر اعظم سے ڈسکس کر لیں۔ اس میٹنگ میں جنرل پرویز مشرف نے بھی شرکت کرنی تھی اور چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ تاہم سب لوگ اس وقت بڑے حیران ہوئے جب غیر متوقع طور پر سندھ کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ نے وزیر اعظم کے حکم کے باوجود اس میٹنگ میں شرکت نہیں کی حتیٰ کہ آج تک بھی غوث علی شاہ پر یہ الزام لگتا ہے کہ انہوں نے فوجی بغاوت کی بُو سونگھ لی تھی اور وہ اس میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ شجاعت کے بقول ان کیلئے حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس دن نواز شریف بہت خاموش تھے اور پریشانی واضح طور پر ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی جیسے ان کے ذہن پر کوئی بہت بڑا بوجھ ہو۔ یہ میٹنگ کوئی دو بجے کے قریب ختم ہوئی اور تمام لوگ نواز شریف کے ساتھ پرائم منسٹر ہاؤس چلے گئے تاہم چوہدری شجاعت وہاں سے نکل گئے کیونکہ انہوں نے جاپانی سفیر کے ساتھ لنچ کرنا تھا۔
اس مرحلے پر چوہدری شجاعت تھوڑی دیر کیلئے رکے ایک بڑا گہرا سانس لیا اور بولے کہ اگر 12 اکتوبر والے دن وہ وزیر اعظم کے ساتھ چلے جاتے تو وہ بھی وہاں بہت سارے دوسرے لوگوں کی طرح فوجیوں کے ہاتھوں ٹریپ ہو جاتے جو وہاں جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف بنانے کی تقریب میں شرکت کیلئے گئے ہوئے تھے۔
میں نے چوہدری شجاعت سے پوچھ ہی لیا کہ آخر نواز شریف نے جنرل مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا تھا۔
بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شجاعت نے جواب دیا کہ نواز شریف ان دنوں غیر سیاسی لوگوں کے گھیرے میں آئے ہوئے تھے اور انہوں نے ہی ان سے وہ احمقانہ فیصلے کروائے تھے۔ کیبنٹ کے کسی ایک ممبر کو بھی اس فیصلے کی بھنک نہیں پڑنے دی گئی تھی اور تو اور شجاعت بھی جنرل مشرف کو ہٹائے جانے کے اس فیصلے سے لاعلم تھے۔ شجاعت کے بقول شریف برادران کو کچھ مزاج ہی ایسا تھا کہ وہ بڑے بڑے فیصلے بغیر سوچے سمجھے یا اپنے قریبی سیاسی ساتھیوں سے مشورہ کیے بغیر کر گزرتے تھے۔ چوہدری شجاعت کا خیال تھا کہ اگر نواز شریف نے مشرف کو ہٹانا ہی تھا تو اگر وہ اپنے قریبی ساتھیوں سے مشورہ کرتے تو اس سارے کام کو بڑے بہتر انداز میں کیا جا سکتا تھا۔ شجاعت کا اپنا خیال تھا کہ سری لنکا سے واپسی پر اگر مشرف کو بلا کر یہ کہا جاتا کہ انہیں آرمی چیف کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا تو کوئی آسمان نہ گر پڑتا۔ شجاعت کے ذہن میں کوئی ذرا برابر بھی شک نہیں تھا کہ جنرل مشرف کے پاور میں آنے کا ذمہ دار اور کوئی نہیں نواز شریف خود تھے۔ شجاعت اکثر نواز شریف کو بتایا کرتے کہ آپ فوجی اور عدالتی معاملات میں زیادہ دخل اندازی نہ کیا کریں۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے شجاعت نے مجھے 1992ء کا ایک واقعہ سنایا جب نواز شریف جنرل آصف نواز کی اچانک موت کے بعد اپنی مرضی کا آرمی چیف بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
چوہدری شجاعت کو پرائم منسٹر ہاؤس بلایا گیا جہاں چوہدری نثار علی خان اور جنرل مجید ملک پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے اور نئے آرمی جنرل کے بارے میں گفتگو جاری تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل رمضان بھٹی کو نیا آرمی چیف بنانے کی بات ہو رہی تھی اس کے ساتھ ساتھ عبدالوحید کاکڑ اور جنرل اشرف کو بھی ممکنہ امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔ جب باری آنے پر چوہدری شجاعت کی رائے طلب کی گئی تو شجاعت نے وزیراعظم کو یہ کہا کہ آپ بڑے آرام سے یہ تینوں نام لکھ کر غلام اسحق خان کو بھیج دیں اور آخری فیصلہ ان کو کرنے دیں۔ شجاعت نے نواز شریف کو بتایا کہ جو بھی آرمی چیف بنے گا وہ سیدھا ان کو سیلوٹ مارنے کیلئے وزیراعظم ہاؤس ضرور آئے گا اس لیے انہیں اس بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا۔ میں نے شجاعت سے پوچھ لیا کہ انہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہوا تھا ان کے بقول دونوں بھائی کس مزاج اور طبیعت کے لوگ تھے۔
شجاعت کے بقول نواز شریف زیادہ مہذب اور ہر ایک کے ساتھ بڑی عزت سے پیش آتے تھے تاہم ان کی ساری شخصیت 1997ء کے الیکشن میں بھاری مینڈیٹ لینے کے بعد بدل گئی تھی۔ نواز کے برعکس شہباز شریف بہت مغرور اور سینئر آفیسرز کی بڑی توہین کرتے تھے۔ تاہم چوہدری شجاعت کا میاں شریف کے بارے میں بڑا مختلف نقطہ نظر تھا۔ ان کے خیال میں شریف برادران کے والد صاحب ان دونوں بھائیوں کے فیصلوں میں سمجھداری لانے کیلئے بڑا اہم کردار ادا کرتے تھے۔ کئی اہم موقعوں پر میاں شریف نے چوہدری شجاعت کی بڑی مدد کی جب انہوں نے ان دونوں بھائیوں کے غلط فیصلوں کو رکوانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا وگرنہ ان کی حکومت کیلئے بڑے شدید مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ میاں شریف خاندان کے بڑے کی طرح اپنی ایک رائے دیا کرتے اور یہ دونوں بھائی اس کا احترام کرتے تھے۔
تاہم مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ شریف خاندان کے اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی چوہدری شجاعت اور جنرل مشرف میں دوستی کیسے ہو گئی تھی اور دونوں 12 اکتوبر کے بعد اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ شجاعت نے اس راز سے بھی پردہ اٹھادیا۔
دراصل چوہدری شجاعت ڈیفنس کمیٹی آن کیبنٹ کی میٹنگز میں بطور وزیر داخلہ شریک ہوتے تھے۔ یہ کئی دفعہ ہوا کہ جنرل مشرف اور چوہدری شجاعت کے نیشنل سیکیورٹی کے معاملات پر خیالات تقریباً ایک جیسے پائے گئے جس کی وجہ سے ان دونوں میں فطری طور پر ہم آہنگی بڑھی خصوصاً کارگل کے معاملے پر۔جونہی چوہدری شجاعت نے کارگل کا ذکر کیا تو میرے ذہن میں جنرل مشرف اور نواز شریف کی جاری لفظوں کی جنگ سامنے آ گئی۔ نواز شریف یہ مسلسل کہتے تھے کہ جنرل مشرف نے ان کو بتائے بغیر کارگل کا محاذ شروع کیا جس سے ہندوستان اور پاکستان کی فوجیں تقریباً جنگ لڑنے کے قریب آ گئی تھیں۔ سب سے بڑھ کر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری امن مذاکرات کو شدید دھچکہ لگا اور پوری دنیا میں پاکستان اکیلا رہ گیا جبکہ جنرل مشرف ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ کارگل کی جنگ باقاعدہ نواز شریف سے اجازت لے کر شروع کی گئی تھی۔ میں نے اس کو بہترین موقع جانا اور شجاعت سے پوچھ لیا کہ کیا ان کے خیال میں نواز شریف کو کارگل کے مسئلے پر اندھیرے میں رکھا گیا تھا اور ان کو بتائے بغیر ہندوستان سے اتنی بڑی جنگ چھیڑنے کی کوشش کی گئی۔
چوہدری شجاعت نے فوراً اس تاثر کی تردید کی اور بولے کہ نہیں نواز شریف کو اس معاملے کا سب پتہ تھا۔ اس بات کا ثبوت دینے کی غرض سے شجاعت نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ ایک بریگیڈیئر کارگل پر بریفنگ دے رہے تھے۔ ایک مرحلے پر جنرل مشرف جو اس میٹنگ میں شریک تھے نے یہ محسوس کیا کہ نواز شریف کو اس بریگیڈیئر کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور بریگیڈیئر کے ہاتھ سے اسٹک لے کر جنرل مشرف نے کارگل آپریشن کی تمام تفصیلات بتانا شروع کر دیں۔
اچانک نواز شریف نے بڑی اونچی آواز میں کہا کہ جنرل تم نے تو یہ ساری باتیں مجھے کبھی نہیں بتائیں۔ اس پر جنرل مشرف رک گئے۔ انہوں نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی ڈائری نکالی اور ان تمام میٹنگز کی تاریخیں بتانی شروع کر دیں جس میں انہوں نے نواز شریف کے ساتھ کارگل پر تفصیل سے گفتگو کی ہوئی تھی۔ شریف کا خیال تھا کہ اس میٹنگ میں موجود اس کے تمام وزیر اس کا ساتھ دیں گے۔ سرتاج عزیز جو اس وقت فارن منسٹر تھے اور شجاعت وزیر داخلہ ان کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔ وہ دونوں چپ رہے۔
تاہم جب ماحول میں تلخی بڑھی تو شجاعت نے کہا کہ اب چونکہ مسئلہ بہت پھیل گیا تھا لہذا وہاں بیٹھے تمام شرکاء کیلئے ضروری تھا کہ وہ اپنے اختلافات بھلا دیں اور پریس کو ایک مشترکہ بیان بھیجا جائے جس میں یہ کہا جائے کہ کارگل سول اور ملٹری لیڈر شپ کا مشترکہ پلان تھا۔تاہم نواز شریف نے چوہدری شجاعت کی یہ بات نہیں مانی بلکہ شجاعت کی اس بات سے نواز شریف بڑے شدید غصے میں آئے اور جب وہ میٹنگ سے اٹھ کر جانے لگے تو انہوں نے شجاعت سے نہ ہاتھ ملایا اور نہ ہی خدا حافظ کہا۔ یہ چوہدری شجاعت کیلئے بڑا واضح پیغام تھا کہ وہ کارگل کے مسئلے پر جنرل مشرف کی حمایت کرنے پر ان سے خفا تھے۔
اس مرحلے پر میں نے شجاعت سے پوچھ لیا کہ جنرل مشرف کی بغاوت کا سب سے بڑا فائدہ تو ان کے خاندان کو ہوا تھا اور جس طرح وہ وزیراعظم نواز شریف کی مخالفت کرکے جنرل مشرف کی حمایت کرتے رہے تھے اس کا انہوں نے بعد میں پورا پورا فائدہ بھی اٹھایا تھا۔ تاہم چوہدری شجاعت میری اس بات سے متفق نہیں ہوئے اور بولے کہ جب اس ملک میں مارشل لاء لگا تو جنرل مشرف کے دور حکومت میں انہیں اور ان کے خاندان کو سب سے زیادہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ بتانے لگے کہ جونہی بغاوت ہوئی ایک آرمی میجر لاہور میں واقع ان کے گھر پر پہنچا۔ اس نے ان کی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی اور ان سب کو ایک کمرے میں بند کر دیا۔ شجاعت حسین کی فیملی کو تنگ کرنے کی غرض سے ایک بہت بڑے لیول کی ٹیم ان کے گھر بھیجی گئی تھی کہ وہ جا کر ان کے باتھ روم تک چیک کریں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ کتنے امیر لوگ تھے۔ اس پر اکتفا نہ کیا گیا اور انتہائی احمقانہ قسم کے سوالات کے جواب دینے کیلئے کہا گیا کہ ان کا کچن، باتھ روم، فلش اور اس طرح کی دیگر چھوٹی موٹی چیزیں کیسے اور کیونکر بنی تھیں۔ باتھ روم میں پڑی ہوئی چیزوں کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا گیا تھا۔ چوہدری شجاعت نے پھر بھی تحمل سے کام لیتے ہوئے ان سوالات کے جواب دیئے۔ تاہم اگلے روز ایک اور ٹیم وہاں پہنچ گئی جن کے ہاتھ میں وہ فارم موجود تھا اور انہوں نے باتھ روم اور کچن چیک کرنا شروع کر دیئے کہ کیا واقعی ان کو صحیح جواب دیئے گئے تھے۔
جب چوہدری شجاعت کے گھر پر اس طرح کا چھاپا مارا گیا تو انہوں نے پہلی دفعہ طارق عزیز کو ٹیلی فون کیا جو اس وقت جنرل مشرف کے ساتھ تھے۔ طارق عزیز نے مشرف سے پوچھا تو جنرل نے کہا کہ اس نے اس طرح کی کوئی آرڈرز پاس نہیں کیے۔ تاہم چوہدری شجاعت کی فیملی کے خلاف اس طرح کے ایکشن ہوتے رہے اور حتیٰ کہ ان کو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
جب شجاعت نے طارق عزیز کا نام لیا تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے طارق عزیز کو استعمال کرتے ہوئے جنرل مشرف سے اپنے تعلقات استوار کر کے آنے والے دنوں میں اس ملک کے پہلے سیاسی گاڈ فادر کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔
طارق عزیز چوہدریوں کا اس وجہ سے بھی بڑا ممنون تھا کہ جب ایک سول سرونٹ کی حیثیت سے آصف علی زرداری ان سے شدید ناراض ہوئے اور انہوں نے ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی تو اس نے چوہدریوں کی جان بچائی تھی۔ اب وقت آ گیا تھا کہ طارق عزیز چوہدریوں کے ان احسانات کا بدلہ چکاتے۔ تاہم چوہدری شجاعت اس بات سے انکاری تھے کہ طارق عزیز نے ان کو کوئی سیاسی رول لے کر دینے میں کوئی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے شجاعت نے انکشاف کیا کہ آپ طارق عزیز کی کیا بات کرتے ہیں وہ تو میری جنرل امجد سے ایک میٹنگ بھی کرانے میں ناکام رہے تھے۔ یہ میٹنگ جنرل مشرف کے کہنے پر ہونی تھی کیونکہ مشرف چاہتے تھے کہ میں ان سے مل کر اپنے خلاف نیب میں رجسٹرڈ کیے گئے تمام کیسز کی وضاحت پیش کروں۔ طارق عزیز کی تمام تر کوششوں کے باوجود جنرل امجد سے ان کی میٹنگ نہیں ہو سکی تھی۔ شجاعت کے بقول جنرل مشرف کی حکومت نے دراصل The Most Wanted کے نام سے سیاستدانوں کی ایک فہرست تیار کی تھی جس کا نام “Big Heads” رکھا گیا تھا۔ چوہدریوں کے خلاف مقدمات کر کے انہیں ہراساں کرنے کا مقصد دراصل یہ تھا کہ دوسرے سیاستدانوں کو یہ پیغام بھیجا جا سکے کہ اگر گجرات کے طاقتور چوہدریوں کے خلاف کیسز بنائے جا سکتے تھے تو پھر سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہیں بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔
میں بڑا حیران ہو رہا تھا اور اسی حیرانی کے عالم میں شجاعت حسین سے پوچھ لیا تو پھر ان کی پہلی دفعہ 12 اکتوبر کے بعد جنرل مشرف سے کب ہوئی تھی۔ وہ بتانے لگے کہ دراصل انہوں نے جنرل مشرف سے ملنے کیلئے ٹائم مانگا تھا تاکہ وہ اپنے خلاف بنائے گئے کیسز کی وضاحت انہیں کر سکیں۔ اس میٹنگ کے بعد ہی جنرل مشرف نے انہیں یہ کہا تھا کہ وہ جا کر جنرل امجد سے ملیں اور یہ ساری باتیں ان کو بتائیں۔ تاہم جنرل امجد نے چوہدری شجاعت حسین سے ملنے سے انکار کر دیا تھا اور انہیں یہ پیغام دیا گیا کہ وہ عدالتوں کے ذریعے ہی اپنے آپ کو کلیئر کروائیں۔
اگرچہ چوہدری شجاعت حسین یہ بات چھپا گئے لیکن مجھے میرے قابل اعتماد ذرائع نے بتایا تھا کہ ان کی بار بار درخواستوں کے باوجود جنرل مشرف انہیں وقت دینے کیلئے تیار نہیں تھے آخر طارق عزیز نے ان کی مشرف سے ملاقات کا ایک طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ راولپنڈی کے پی سی ہوٹل میں کسی ایک بڑے آدمی کے بچے کی شادی تھی جہاں جنرل مشرف نے بھی آنا تھا۔ طارق عزیز نے چوہدری پرویز الٰہی اور شجاعت کو چپکے سے وہیں بلوا لیا اور ان دونوں کو عین اس جگہ پر بٹھا دیا جہاں سے مشرف نے گزر کر جانا تھا۔ جونہی شادی کا فنکشن ختم ہوا مشرف اپنے باڈی گارڈز کے ساتھ وہاں سے نکلنے لگے تو یہ دونوں اچانک اس کے سامنے آ گئے۔ مجبوراً جنرل مشرف کو ان سے ملنا پڑا اور ان کے اصرار پر انہیں ملاقات کا وقت بھی دیا۔ تاہم جنرل مشرف نے انہیں یہ کہا کہ وہ جا کر جنرل امجد سے ملیں۔ یہ علیحدہ کہانی ہے کہ جنرل مشرف نے جنرل امجد کو کبھی فون کر کے نہیں کہا کہ وہ ان دونوں کو ملنے کا وقت دے یا ان کی بات غور سے سنے۔ یہی وجہ تھی کہ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کی بار بار درخواستوں کے باوجود جنرل امجد نے کبھی انہیں ملنے کا وقت نہیں دیا۔ جنرل امجد کا ان سے ملاقات سے انکار کرنا شاید آخری ذلت نہیں تھی کیونکہ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کیلئے ابھی بہت کچھ سہنا اور سننا باقی تھا۔
ایک دن ان دونوں کو NDFC کے چیئرمین میاں آصف سعید کا یہ پیغام ملا کہ وہ اس کے گھر پر تشریف لائیں اور چائے کا ایک کپ پیءں۔ وہ دونوں جب وہاں پہنچے تو میز پر ٹانگیں پھیلائے میاں آصف نے انہیں بیٹھنے کیلئے بھی نہیں کہا اور بڑے کھردرے لہجے میں انہیں بتایا کہ جناب یا تو آپ کاروبار کر لیں یا پھر سیاست۔ چوہدری شجاعت کی زندگی میں یہ دن بھی آنا تھا کہ انہیں ایک سرکاری افسر نے ایک آپشن دیا کہ سیاست اور کاروبار میں سے ایک کا فیصلہ کر لیں۔ چوہدری شجاعت نے اپنے آپ کو زندگی میں کبھی اتنا ذلیل محسوس نہیں کیا تھا۔ ایک لمحہ رکے بغیر وہ دونوں الٹے پاؤں میاں آصف سعید کے گھر سے باہر نکل آئے۔ میاں آصف سعید میں اتنا تکبر بھرا ہوا تھا کہ وہ ان کو گھر سے باہر چھوڑنے بھی نہیں آیا۔
چوہدری شجاعت نے ایک دفعہ پھر میری آنکھوں میں دیکھا اور مجھے کہا کہ ہم دونوں اتنی بڑی بے عزتی اس لیے برداشت کر گئے کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ یہ آصف سعید نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیٹھے جنرل محمود اور جنرل امجد بول رہے تھے۔ اگرچہ چوہدری شجاعت نے تو مجھے یہ بات نہیں بتائی لیکن مجھے ان کے لہجے سے یہ احساس یقیناً ہو گیا تھا کہ یہ وہ لمحہ تھا جب چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی نے سوچا ہوگا کہ میاں آصف سعید جیسے چھوٹے افسر کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے بہتر تھا کہ جنرل محمود اور جنرل امجد کے اصل باس جنرل مشرف کے دربار میں حاضری دے کر اس ملک کا ایک نیا سیاسی گاڈ فادر بنا جائے۔ اگر بندے نے ذلیل اور بے عزت ہونا بھی ہو تو آصف سعید، جنرل محمود اور جنرل امجد جیسے لوگوں سے کیوں ہوا جائے اور یوں شجاعت اور پرویز الٰہی نے بالکل صحیح فیصلہ کیا اور کچھ عرصے بعد میاں آصف سعید جیسے لوگ اپنی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کرانے کیلئے چوہدری شجاعت کے دربار میں ہاتھ باندھے نظر آ رہے تھے۔
چوہدری شجاعت ابھی بھی نواز شریف سے گلے شکوے کر رہے تھے کہ وہ کیسے اپنے تمام ساتھیوں کو چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں ڈیل کر کے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔
میں نے چوہدری شجاعت سے پوچھ لیا کہ چلیں مان لیتے ہیں کہ نواز شریف نے انہیں دھوکہ دیا تھا تو کیا انہوں نے یہ کام 2002ء کے الیکشن میں اپنے ان قریبی سیاسی ساتھیوں کے ساتھ نہیں کیا تھا جو ان کے ساتھ پی ایم ایل کیو میں شامل ہوئے تھے لیکن بعد میں ان کو الیکشن میں ہرا دیا گیا تاکہ چوہدری شجاعت حسین اپنی مرضی سے پارٹی اور حکومت چلا سکیں۔چوہدری شجاعت بڑے حیران ہوئے اور مجھ سے پوچھا کہ کس کی بات کر رہے ہیں۔ میں مسکرایا اور انہیں کہا کہ جناب میں فخر امام، عابدہ حسین، انور سیف اللہ، سلیم سیف اللہ اور میاں اظہر جیسے بہت سارے سیاسی لیڈروں کی بات کر رہا ہوں جنہوں نے یہ الزامات لگائے تھے کہ انہیں جان بوجھ کر الیکشن میں ہرایا گیا تھا تاکہ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کی راہ ہموار ہو سکے اور وہ اپنی مرضی کی گیم کھیل سکیں۔
شجاعت نے میری بات بڑے دھیان سے سنی اور پھر بولے کہ بالکل یہ غلط بات تھی کیونکہ اگر وہ الیکشن جیتتے تو آج وہ بھی حکومت کا حصہ ہوتے۔ شجاعت کا خیال تھا کہ ان سیاسی لوگوں میں سے کوئی ایک بھی اس کیلئے کوئی بہت بڑی تھریٹ نہیں تھا لہذا انہیں ہرانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
تاہم یہ بات بڑی واضع تھی جس کا اقرار اب چوہدری شجاعت نہیں کر رہے تھے کہ اگر میاں اظہر الیکشن جیت جاتے تو پھر یقیناً وہ پی ایم ایل کیو کے صدر ہونے کی حیثیت سے وزارت عظمیٰ پر اپنا حق جتلاتے اور یوں چوہدری پرویز الٰہی کیلئے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ لینے میں جہاں دقت پیش آتی وہاں اگر وہ وزیر اعلیٰ بن بھی جاتے تو پنجاب سے ایک اور وزیراعظم جس کا تعلق بھی لاہور سے تھا اس کی موجودگی میں شاید وہ اتنی آزادانہ حکومت نہ کر سکتے جو انہوں نے بعد میں کی۔ لہذا اس بات میں بڑی حد تک سچائی ہو سکتی ہے کہ چند لیڈروں کو جان بوجھ کر ہرایا گیا تاکہ پنجاب سے کسی وزیراعظم کو روکا جا سکے اور چوہدریوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی سیاسی گیم کھیلی اور ظفر اللہ جمالی جیسے کمزور شخص کو وزیر اعظم بنا کر پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ یہی نہیں بلکہ جب ظفر اللہ جمالی کا کام ختم ہوا اور اس کی جگہ ہمایوں اختر خان نے آئی ایس آئی اور طارق عزیز کی مدد سے وزیراعظم بننے کی کوشش کی تو آخری لمحے پر چوہدری شجاعت جیسے زیرک سیاستدان نے میز ان پر الٹ دی اور شوکت عزیز کو وزیراعظم بنوا دیا کیونکہ چوہدری برادران کسی قیمت پر یہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے کہ پنجاب سے کوئی وزیراعظم بنے۔ ان کی یہ حکمت عملی بڑی کامیاب رہی اور 15 نومبر 2007ء کو جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑ کر نئے الیکشن کرانے کیلئے نئی نگران حکومت بنائی گئی تو اس وقت تک پرویز الٰہی اپنے آپ کو بڑی کامیابی سے ملک کا اگلا وزیراعظم ثابت کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ یہ تو تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ بینظیر بھٹو ماری گئیں اور یوں ساری گیم پلٹ گئی۔
چوہدری شجاعت ابھی بھی باتیں کر رہے تھے اور میرا ذہن ان کا سیاسی کھیل سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایک طرف تو چوہدری شجاعت یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ 12 اکتوبر کے بعد ان کی فیملی کے ساتھ انتہائی توہین آمیز رویہ اختیار کیا گیا تھا ان کے گھروں کے باتھ روم تک چیک کیے گئے۔ جنرل امجد جیسے لوگوں نے ان سے ملنے سے انکار کیا اور اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو میاں آصف جیسے بیوروکریٹ نے انہیں ذلیل کر کے پوری کر دی اور وہ پھر بھی جنرل مشرف کے حامی بن گئے۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ یہ سارا کام جنرل مشرف کی ہدایت پر کیا جا رہا تھا تاکہ ان چوہدری برادران کے گلے میں رسی اس طرح ڈالی جائے کہ نہ صرف وہ خود جنرل مشرف کیلئے کام کرنے پر تیار ہو جائیں بلکہ اپنے جیسے سیاستدانوں کا ایک پورا ریوڑ ہانک کر ان کی شکار گاہ میں لے جائیں جنہیں استعمال کر کے وہ اس ملک پر حکومت کریں۔ بعد کے واقعات نے یہ ثابت کیا کہ جنرل مشرف نے نیب کو استعمال کر کے نہ صرف چوہدری شجاعت بلکہ دیگر تمام سیاستدانوں کو نکیل ڈال کر اپنے اقتدار کیلئے استعمال کیا۔
چوہدری شجاعت نے شاید میرے ذہن میں گردش کرتے ان سوالوں کو پڑھ لیا تھا لہذا انہوں نے خود ہی مجھے کہا کہ میں نے جنرل مشرف کے اقتدار کی اس لیے حمایت کی تھی کیونکہ ان میں اور مشرف میں ایک چیز بڑی مشترکہ تھی کہ دونوں نیشنل سیکیورٹی کے بارے میں ایک ہی رائے رکھتے تھے۔ چوہدری شجاعت نے مشرف کیلئے کی جانے والی اپنی حمایت کے جواز ڈھونڈنے جاری رکھے اور مجھے بتایا کہ ماضی کے جرنیلوں کے برعکس جنرل مشرف نے مارشل لاء نہیں لگایا تھا بلکہ انہیں یہ کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ تاہم چوہدری شجاعت مجھے یہ بتانا نہیں بھولے کہ وہ ملک میں فوجی حکومت کے خلاف تھے۔ چوہدری صاحب کے خیال میں ماضی میں جتنے بھی مارشل لاء لگائے گئے وہ سب غلط تھے اور ان کیلئے ان تمام جرنیلوں کو ذمہ دار سمجھنا چاہیے جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کیلئے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارا۔ تاہم ایک سمجھدار سیاستدان کی طرح چوہدری شجاعت میں بھی اتنی عقل باقی تھی کہ انہوں نے جنرل مشرف کو ہرگز اس فہرست میں شامل نہیں کیا جس میں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء کے نام تھے۔ چوہدری شجاعت کو یہ پتہ تھا کہ وہ تینوں جنرل تو مر چکے تھے لہذا وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے تاہم جنرل مشرف نہ صرف زندہ تھے بلکہ چوہدریوں کے اپنے مستقبل کی سیاست کا انحصار بھی اس جنرل کی زندگی اور وردی کے ساتھ منسلک تھا۔
یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا تھا کہ چوہدری شجاعت وردی میں ملبوس آرمی جرنیلوں سے تعاون کر کے سیاست میں ترقی کی منزلیں طے کر رہے تھے کیونکہ انہوں نے باتوں باتوں میں یہ انکشاف کیا کہ کیسے ایک دن جنرل اسلم بیگ نے انہیں ملنے کی دعوت دی۔ جب وہ پرویز الٰہی کے ساتھ وہاں ان سے ملنے کیلئے پہنچے تو بیگ صاحب نے ان دونوں کو کروڑوں روپے دینے کی پیشکش کی۔ یہ سیکرٹ رقم انہیں مہران بینک کے اکاؤنٹ سے ملنی تھی۔ یہ وہی مہران بینک اسکینڈل ہے جس کے بارے میں اصغر خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک درخواست دائر کی تھی کہ کیسے جنرل اسلم بیگ اور ریٹائرڈ ڈی جی ایس آئی ایس اسد درانی نے سیاستدانوں میں چودہ کروڑ روپے کی رشوت بانٹی تھی۔ جن سیاستدانوں کو مہران بینک سے پیسے دیئے گئے تھے ان میں نواز شریف، فاروق لغاری، سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق، ایم کیو ایم کے الطاف حسین، یوسف میمن، جاوید ہاشمی، لیاقت جتوئی، ایم کیو ایم کے آفاق احمد، امتیاز شیخ، جام معشوق، اجمل خان، دوست محمد فیضی، عدنان ولد سرتاج عزیز وغیرہ شامل تھے۔
چوہدری شجاعت کے بقول جب وہ اسلم بیگ کے گھر پہنچے تو وہ بغیر بازؤں کی شرٹ پہنے بہت ریلیکس نظر آ رہے تھے۔ جنرل بیگ نے ان دونوں چوہدریوں کو بتایا کہ انہوں نے ایک پلان بنایا تھا جس کے تحت آئی جی آئی کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے تمام سیاستدانوں کو ان کے الیکشن کیلئے پیسے دیئے جائیں گے۔ چوہدری شجاعت حسین ایک سرونگ آرمی چیف کے منہ سے اتنی بڑی بات جو اتنے آرام سے کہی گئی تھی سن کر ششدر رہ گئے۔ تاہم چوہدری شجاعت نے جنرل بیگ سے وہ پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ جنرل اسلم بیگ کو چوہدریوں کا یہ انکار سن کر بڑا دھچکا لگا کیونکہ اب تک ان سے آرمی ہاؤس میں جو بھی ملنے آیا تھا اس نے پیسے لینے سے انکار نہیں کیا تھا۔ مرزا اسلم بیگ نے یہ سمجھا کہ شاید یہ چوہدری صاحبان اپنے نام پر پیسے لینے کیلئے تیار نہیں تھے لہذا یہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے تھے جنرل بیگ نے انہیں یہ آفر کی کہ وہ اپنے نام سے اکاؤنٹ کھولنے کے بجائے اپنے کسی فرنٹ مین کا نام دے دیں جس کے نام پر کراچی میں اکاؤنٹ کھول کر اس میں پیسے ٹرانسفر کر دیئے جائیں گے۔ چوہدریوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے جنرل بیگ نے یہ بھی پیشکش کی کہ اس بینک اکاؤنٹ میں گاہے بگائے پیسے ٹرانسفر ہوتے رہیں گے اور وہ یہ پیسے پیپلز پارٹی کو الیکشن ہرانے کیلئے استعمال کر سکیں گے۔ تاہم چوہدری شجاعت نے ایک سمجھدار سیاستدان کی طرح ایک بیوقوف مچھلی بننے سے انکار کر دیا جو پانی میں کیکڑا کھانے کے چکر میں دریا کے کنارے ایک شکاری کا پھندا نکل لیتی ہے اور پھر اس کی قسمت کا فیصلہ وہ شکاری کرتا ہے۔ چوہدری شجاعت نے جنرل بیگ کو بتایا کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی اس طرح کی گھٹیا سیاست کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ملٹری جرنیلوں سے پیسے لے کر الیکشن لڑے گا۔ ایک حیران اور پریشان آرمی جنرل کو چوہدری شجاعت نے بتایا کہ وہ کیا بات کر رہے تھے کیونکہ وہ تو اپنی پارٹی کے بہت سارے لوگوں کو الیکشن لڑنے کیلئے خود پیسے فراہم کرتے تھے۔ بھلا انہوں نے یہ کیسے سوچ لیا کہ اب وہ ان سے پیسے لے کر الیکشن لڑیں گے۔ ا نہوں نے جنرل بیگ کو بتایا کہ وہ ان سے ایک روپیہ بھی نہیں لیں گے اور اپنی جیب سے سارا الیکشن لڑیں گے۔
چوہدری شجاعت نے مجھے بتایا کہ جب جنرل بیگ نے یہ محسوس کیا کہ وہ ان سے پیسے لینے کیلئے ہرگز تیار نہیں تھے تو یکدم آرمی جنرل کا لہجہ بہت سخت ہو گیا۔ چہرے پر لکھی ناراضگی صاف نظر آ رہی تھی۔ جنرل بیگ نے چوہدری شجاعت پر زور ڈالا کہ وہ پیسے لے لیں۔ تاہم آخری حربے کے طور پر جنرل بیگ نے چوہدری شجاعت کو کہا کہ ٹھیک ہے اگر وہ خود پیسے لینے کیلئے تیار نہیں تھے تو وہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کا الیکشن لڑنے والے ان لوگوں کی ایک ایسی فہرست تیار کریں جو پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے۔ جنرل بیگ کے بقول ان تمام امیدواروں کو مہران بینک سے پیسوں کی ادائیگی کی جائے گی۔
چوہدری شجاعت نے اس بات کا میرے سامنے اعتراف کیا کہ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ وہ ایک آرمی چیف کو ناراض کرنے کی جرات کر رہے تھے جس کا نتیجہ کوئی اچھا نہیں نکلنا تھا لہذا انہوں نے بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل اسلم بیگ سے کچھ وقت مانگا اور کہا کہ بہت جلد وہ ایک فہرست بنا کر ان کے حوالے کریں گے جو ان سے پیسے لے کر الیکشن لڑنے پر راضی ہو جائیں۔ تاہم چوہدری شجاعت نے کہا کہ وہ اس کے بعد کبھی بھی جنرل بیگ سے ملنے نہیں گئے اور نہ ہی انہوں نے اس طرح کی کوئی فہرست بنا کر ان کے حوالے کی کیونکہ وہ اس طرح کی گندی سیاست کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
جب 24 اپریل 2003ء کو چوہدری شجاعت کا یہ تہلکہ خیز انٹرویو دی نیوز میں Shujaat makes startling disclosures کے ٹائٹل سے چھپا تو ہر طرف ایک سناٹا سا چھا گیا۔ کوئی بھی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ چوہدری شجاعت جیسا بندہ اپنے اندر کی کہانیاں باہر لے آئے گا۔ اسی شام مجھے چوہدری شجاعت کا فون آیا اور اپنے مخصوص پنجابی لہجے میں وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگے۔ ان کی آواز سے بڑا جوش اور خوشی جھلک رہی تھی۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ نے تو پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا ہے ہر طرف سے انہیں فون آ رہے تھے۔ تاہم میں نے ایک بات بڑی محسوس کی کہ کارگل کے تنازعہ پر جنرل مشرف کی حمایت کر کے انہوں نے اپنے باس کو بہت خوش کر دیا تھا۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ کے اس انٹرویو کا کارگل والا حصہ کسی اردو اخبار میں نہیں چھپ سکتا۔ میں نے کہا بالکل چھپ سکتا ہے اور میں نے انہیں طریقہ بتایا کہ یہ کیسے چھپ سکتا تھا۔ اگلے دن روزنامہ جنگ میں جنگ کے ایک رپورٹر کے نام سے چوہدری شجاعت کا وہ انٹرویو پھر چھپا۔ بعد میں پتہ یہ چلا کہ جنرل مشرف نے چوہدری شجاعت کا میرے ساتھ وہ انٹرویو پڑھ کر انہیں فون کر کے بہت سراہا تھا اور انہیں شاباش دی تھی کیونکہ اس انٹرویو سے جنرل مشرف کے اس بیان کی تصدیق ہوتی تھی کہ انہوں نے کارگل آپریشن نواز شریف کی مرضی سے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد ہر انٹرویو اور گفتگو میں چوہدری شجاعت نے کارگل والے مسئلے پر یہی لائن لینا شروع کی۔
اس سے پہلے جب میں چوہدری شجاعت کا انٹرویو ختم کر چکا اور اٹھ کر دفتر آنے لگا تو ایک روایتی میزبان کی طرح چوہدری شجاعت نے مجھ سے بھی پوچھا کہ آپ بتائیں میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں۔ میں دوبارہ بیٹھ گیا اور ان سے کہا کہ میرا ایک بڑا ضروری کام ہے اگر آپ وہ کرا دیں تو میں بہت مشکور ہوں گا۔ چوہدری شجاعت نے کہا کہ بالکل آپ حکم کریں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ان کے پاس جنرل ضیاء کے طیارے کی ایک ایسی انکوائری رپورٹ پڑی تھی جو آج تک کبھی نہیں چھپی اور اس کی اکلوتی کاپی ان کے قبضے میں تھی۔ اگر وہ مہربانی کر کے وہ کاپی مجھے دے سکیں تو میرے لیے بہت بڑا سکُوپ ہوگا اور اس سے بڑی فیور کسی رپورٹر کو نہیں مل سکتی۔ چوہدری شجاعت نے قہقہہ مارا اور بولے میں تو کچھ اور سمجھا تھا۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ بہت جلد یہ کاپی ڈھونڈ کر مجھے بھجوائیں گے۔ اس کے بعد چوہدری شجاعت سے میری کئی ملاقاتیں ہوئیں اور وہ ہمیشہ مجھے دیکھ کر یہی کہتے کہ مجھے اب تک دو گھنٹے نہیں ملے کہ میں بیٹھ کر وہ رپورٹ کی کاپی آپ کیلئے ڈھونڈ سکتا۔ جس دن مجھے دو گھنٹے مل گئے میں وہ کاپی ڈھونڈ کر آپ کو ضرور بھیجوں گا۔ میں ہمیشہ ان سے یہی کہتا کہ چوہدری صاحب میں نے تو آپ کی دریا دلی اور سخاوت کا بڑا ذکر سنا تھا لیکن میں نے آپ سے ایک چھوٹے سے کام کی درخواست کی تھی وہ بھی آپ نہیں کر سکے۔ چوہدری شجاعت کے اس وعدے کو سات سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے اور چوہدری صاحب میرے لیے اب تک دو گھنٹے نہیں نکال سکے۔ پچھلے دنوں پاکستان کے بہت بڑے صحافی عامر متیں کے گھر پھر ملاقات ہوئی جہاں وہ ڈان کے ظفر عباس کے لے ہونے والی تقریب میں شریک تھے۔مجھے دیکھا تو خود ہی انہیں یاد آ گیا اور بول پڑے یار توں لیٹ ایاں اے۔ ابھی رحمان ملک ادھر تھا میں اسے کہتا کہ یہ رپورٹ شاید وزرات داخلہ میں پڑی ہو۔ میں مسکر ا پڑا۔
اس سے پہلے میری چوہدری شجاعت سے ملاقات 2008ء میں ہوئی جب میں نے اپنے اخبار دی نیوز میں ایک سنسنی خیز خبر چھاپی کہ کیسے چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی نے صدر آصف زرداری کے معتمد خاص ڈاکٹر قیوم سومرو کے گھر جا کر خفیہ ملاقاتیں کی تھیں۔ یہ ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب آصف زرداری صاحب نے بینظیر بھٹو کے چہلم کے اگلے دن نوڈیرو میں بیٹھ کر اپنی پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ایم ایل کیو کو قاتل لیگ قرار دیا تھا۔ اس کا مطلب بڑا واضع تھا کہ آصف زرداری اس پارٹی اور اس کے لیڈروں کو بینظیر بھٹو کا قاتل سمجھتے تھے۔ یہ بات چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی تھی کہ کہیں اقتدار میں آ کر ان دونوں پر بینظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ نہ درج کر لیا جائے۔ اسی اثناء میں شہباز شریف نے بھی چوہدری مونس الٰہی کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا خصوصاً بینک آف پنجاب کے 9 ارب روپے کے سکینڈل کی کہانیاں اخبارات میں چھپنے لگیں۔ اپنے آپ کو چاروں طرف سے گھیرے میں پا کر سمجھدار سیاستدانوں کی طرح چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی نے آصف زرداری سے پینگیں بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس کام کیلئے ڈاکٹر قیوم سومرو کا انتخاب کیا گیا۔ قدرت نے یہ دن دکھانے تھے کہ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی جن کی مرضی کے بغیر اس ملک میں آٹھ سال تک کوئی پتہ نہیں ہلتا تھا آج ڈاکٹر قیوم سومرو کے گھر چھپ کر جا رہے تھے تاکہ اپنی اور اپنے بیٹے کی جان بچائی جا سکے۔
اپنے اخبار میں یہ کہانی لکھتے ہوئے مجھے اپریل 2005ء کی ایک صبح یاد آ گئی جب میں بھی دیگر صحافیوں کے ساتھ آصف علی زرداری کے ساتھ دبئی سے لاہور ایئرپورٹ پر اترا تھا۔ زرداری صاحب کا استقبال کرنے کیلئے ملک بھر سے پارٹی ورکرز پرویز الٰہی کی پنجاب پولیس کے ہاتھوں ڈنڈے کھا کر لہولہان ایئرپورٹ پر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آصف زرداری کو ایجنسیوں نے یقین دلایا تھا کہ اگر وہ لاہور فتح کر لیں تو ملک میں نئے انتخابات کرا لیے جائیں گے اور ان کی پارٹی کو حکومت حوالے کر دی جائے گی۔ آصف علی زرداری صاحب بھی ایجنسیوں کے جھانسے میں آ گئے۔ تاہم لاہور ایئرپورٹ پر جہاز کے لینڈ کرنے سے پہلے ہی انہیں پتہ چل چکا تھا کہ گیم ختم ہو چکی تھی۔ یہی وجہ تھی جب جہاز کے اندر لاہور کے ایس پی مبین نے آ کر آصف زرداری کو سلیوٹ مارا تو انہوں نے اپنی روایتی مسکراہٹ سے اس نوجوان آفیسر کو کہا کہ تمہارے پاس میری گرفتاری کے وارنٹ ہوں گے لہذا مجھے لے چلو۔ ہم سب صحافی بڑے حیران ہوئے کہ یہ صاحب تو لاہور فتح کرنے آئے لیکن وہ چپکے سے امین فہیم کے ساتھ مرسیڈیز گاڑی میں بیٹھ کر زرداری ہاؤس چلے گئے اور پرویز الٰہی کے کمانڈوز نے ہم صحافیوں کو مار مار کر دنبہ بنا دیا کہ ہمارا قصور یہ تھا کہ ہم نے زرداری صاحب کے ساتھ دبئی سے آنے کی جرات کیسے کی تھی۔
آج یہ بھی دور آنا تھا کہ وہی پرویز الٰہی اپنے بیٹے کی جان بچانے کیلئے ڈاکٹر قیوم سومرو کے گھر چھپ کر ملنے گئے تھے اور سومرو صاحب نے بھی پنجاب کے ان چوہدریوں کو مایوس نہیں کیا اور اپنے صاحب سے نہ صرف انہیں بینظیر بھٹو کے قتل کے الزام سے معافی دلوائی بلکہ چند دن بعد ہم نے یہ بھی پڑھا کہ بینک آف پنجاب کے اسکینڈل کا اصل ملزم ہمیش خان اپنا نام ای سی ایل میں ہونے کے باوجود پشاور کے ایئر پورٹ سے ملک سے فرار ہو گیا تھا۔ یوں نہ صرف اس پورے اسکینڈل کو دھچکہ لگا بلکہ مونس الٰہی کے گرد منڈلاتے تمام خطرات بھی دور ہو گئے۔ اس کے بعد چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی نے آصف زرداری کے صدر بننے کے بعد ایوان صدر میں رات کے اندھیرے میں کئی کھانے کھائے جہاں یہ منصوبے بنائے گئے کہ پنجاب میں نواز شریف اور شہباز شریف کی کمر کیسے توڑی جائے۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ہی پنجاب میں گورنر راج لگا اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب لوگوں نے دیکھا کہ کیسے ان سب لیڈروں کو اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑا نہ صرف نواز شریف اور شہباز شریف عدالتوں سے بحال ہوئے بلکہ پنجاب حکومت بھی واپس کر دی گئی۔
اپنے ایف ایٹ کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی مجھے یہی سمجھا رہے تھے کہ مجھے اس طرح کی خبریں نہیں چھاپنی چاہیں۔ ایک بات کی میں یقیناً داد دوں گا کہ میں نے چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کے خلاف ان کے قرضے معاف کرانے سے لے کر فیصل آباد کی سونیا ناز کے ساتھ پنجاب میں ہونے والے ریپ کیس اور اب قیوم سومرو کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کی کئی ایسی خبریں چھاپی تھیں جو یقیناً کوئی بھی حکمران پسند نہیں کرتے لیکن کسی ایک دن بھی چوہدری شجاعت یا پرویز الٰہی نے میرے ساتھ تلخی یا سختی سے بات نہیں کی بلکہ جب اور جہاں ملے بڑی عزت اور احترام سے ملے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں تمام سیاسی لیڈروں کے برعکس چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی نے ہم صحافیوں کو اپنے خلاف لکھنے کے باوجود برداشت کرنے کی بہت بڑی کوالٹی ہے۔
یہی وجہ ہے میں چپ کر کے چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کی باتیں سنتا رہا اور جب اٹھنے لگے تو ان سے ایک ہی بات کی کہ چوہدری صاحب آپ نے مجھ سے پانچ سال پہلے جنرل ضیاء کی انکوائری رپورٹ دینے کا وعدہ کیا تھا اور آپ نے آج تک میرا وہ کام نہیں کیا۔ چوہدری شجاعت تھوڑے جھینپ سے گئے اور بولے کہ جس دن انہیں دو گھنٹے فارغ ملیں گے وہ انکوائری رپورٹ ڈھونڈ نکالیں گے۔
ان سات سالوں میں نہ چوہدری صاحب کو دوگھنٹے ملے ہیں اور نہ ہی انہوں نے جنرل ضیاء کے طیارے کے کریش کی رپورٹ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی ایک گاڈ فادر کا سا انداز ہے کہ نہ مجھے ناں کی ہے اور نہ ہی کام کیا ہے!!!!
یہ سب اس لئے ہے کہ سیاستدان با کردار نہیں اور آپس میں دست و گریبان ہیں؟؟؟

With courtesy of TopStory Online

Comments

Popular posts from this blog

Spain's nuclear legacy

sql joins