جناح، رتی اور میں: ایک دوست کی یادداشتیں


جناح، رتی اور میں: ایک دوست کی یادداشتیں


    جناح، رتی اور میں
    نام کتاب: جناح، رتی اور میں
    مصنف: کانجی دوارکاداس
    مصنفین و مرتبین: شہاب الدین
    دسنوی، عقیل عباس جعفری
    صفحات: 175
    قیمت: 350 روپے

    ناشر: ورثہ پبلیکیشنز، 1/94 اسٹریٹ 26، ڈی ایچ اے۔ فیز- 6، کراچی

    اصل میں تو یہ کتاب پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے بارے میں ہے جو 1947 سے پہلے ان مسلمانوں کی بڑی اکثریت کے رہنما تھے جو اب تین ملکوں، پاکستان بنگلہ دیش اور ہندوستان میں بستے ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ اس اکثریت کے جذبات بھی اب مسٹر محمد علی جناح کے بارے میں اب وہ نہیں رہے جو 1947 سے پہلے تھے۔
    پاکستان میں ان کا نام لینے، عقیدت کا اظہار کرنے اور پیروکاری کا دعویٰ کرنے والوں میں سے اکثریت کا طرز عمل مجاورانہ زیادہ ہے لیکن اس کتاب کے مصنف محمد علی جناح سے ان کے انتقال سے تیس بتیس سال پہلے ملے اور پھر مسلسل رابطے اور تعلق میں رہے اور ان کا تعلق انتہائی مخلصانہ دکھائی دیتا ہے۔
    کانجی دوارکاداس جناح کے انتہائی بااعتماد فیملی فرینڈ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ محمد علی جناح اپنی نوجوان اور حسین اہلیہ رتی کے حوالے شکی تھے اور پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی ان کی اہلیہ کے ساتھ کسی کا رقص کرے لیکن انہوں نے کانجی یہ اجازت ببببھی دے رکھی تھی۔ پھر کانجی واحد آدمی تھے جو رتی سے ان آخری دنوں میں بھی انتہائی قریب تھے جب وہ تنہائی پسندی اور روحانی مسائل کا شکار تھیں۔ رتی کانجی سے اپنے تمام مسائل پر کھل کر بات کر لیتی تھیں۔
    یہ کتاب محمد علی جناح اور ان کی دوسری اہلیہ رتن بائی یا بعد میں رتی جناح کے بارے میں کانجی کی تمام تحریروں کا مجموعہ ہی نہیں بل کہ ایسے نوٹس اور انٹرویو پر بھی مبنی ہے جن میں کانجی نے یہ انکشاف کیا کہ رتی نے محمد علی جناح سے علاحدگی کے بعد اپنی 29 ویں سالگرہ پر خواب آور گولیاں کھا کر خود کشی کر لی تھی۔
    رتی جناح ہندوستان میں ٹیسکٹائل انڈسٹری کے بانی پٹیٹ خاندان کے سر ڈنشا کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ ان سے محمد علی جناح کی پہلی ملاقات تب ہوئی جب وہ صرف سولہ سال کی تھیں اور مسٹر جناح کو ان کے والد اور والدہ نے گرمیوں کے دو ماہ ساتھ گزارنے کے لیے دارجلنگ مدعو کیا تھا۔ ان دو ماہ کے دوران مسٹر جناح نہ صرف رتی کے حسن پر فریفتہ ہوئے تھے بل کہ ذہانت سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ لیکن جب انہوں نے سر ڈنشا سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے نہ صرف انکار کر دیا بل کہ رتی کی کم عمری کی بنا پر ہائی کورٹ سے ایک ایسا امتناعی حکم بھی حاصل کر لیا جس کی رو سے جناح اور رتی کی ملاقاتیں ممکن نہ رہیں۔
    لیکن جیسے ہی رتی اٹھارہ کی ہوئیں انہوں نے والدین کے گھر کو خیر باد کہا، اسلام قبول کیا اور مسٹر جناح سے شادی کر لی۔ یہ شادی لگ بھگ دس سال چلی جس کے دوران ان کے ہاں ایک بیٹی دینا نے جنم لیا۔

    انیس سو اٹھارہ کی ایک یادگار تصویر جس میں مسز اینی بیسنٹ، عمر سوبانی، سید حسین، ڈاکٹر ایم۔ آر۔ جیاکار، بی جی ہارنی مین، محمد علی جناح اور کانجی دوارکاداس نیچے زمین پر بیٹھے ہیں۔ عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ کانجی کی انہیں کوئی اور تصویر نہیں مل سکی۔
    اس کتاب میں جہاں دوسری چھوٹی چھوٹی لیکن انتہائی اہم تفصیلات اکٹھی ہوئی ہیں وہیں بہت تھوڑے سے حصے میں اس دکھی روح کے روز شب کی جھلکیاں بھی ہیں جس نے ایک ایسے آدمی سے محبت کی جو کروڑوں انسانوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے چند اہم ترین لوگوں میں سے ایک تھا اور محبت کے ان دنوں میں اس کے وقت کا ایک ایک لمحہ کشاکش کا شکار تھا۔
    اس کتاب میں کانجی دوارکاداس کی وہ ساری تحریریں جمع ہیں جو انہوں نے مسٹر جناح اور ان کی زندگی کے بارے میں ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنا پر تحریر کی ہیں۔ ان میں پہلی کتاب ’انڈیاز فائٹ فار فریڈم‘ ہے جو 1966 میں شایع ہوئی۔ دوسری کتاب ’ٹن ایئرز ٹو فریڈم‘ ہے جو 1968 میں شایع ہوئی۔ ان دو کتابوں میں 1913 سے 1947 تک کے واقعات ہیں۔
    ان دو کتابوں کو پہلے شہاب الدین دسنوی نے مصنف کی اجازت سے ایک جگہ کیا۔ اس میں عقیل عباس جعفری نے ممتاز محقق، ادیب شاعر اور دانشور احمد سلیم کے مشورے پر نہ صرف ’رتی جناح: اسٹوری آف اے گریٹ فرینڈشپ‘ کو شامل کیا ہے بل کہ کانجی ہی کی ایک اور کتاب ’گاندھی جی: تھرو مائی ڈائری لیوز‘ سے بھی ایسے حصے شامل کیے ہیں جن میں مسٹر جناح کا ذکر موجود تھا۔ مسٹر کانجی کی اس کتاب کا انتساب رتی جناح کے نام ہے۔
    "اس کتاب میں کانجی دوارکاداس کا ایک ایسا انٹرویو بھی ہے جو شہاب الدین دسنوی کی خود نوشت ’دیدہ و شنیدہ‘ سے لیا گیا ہے۔ اسی انٹرویو میں یہ انکشاف بھی ہے کہ رتی جناح کی موت قدرتی نہیں تھی۔ بل کہ انہوں نے خواب آور گولیاں کھا کر خود کشی کی تھی"
    اس کتاب میں کانجی دوارکاداس کا ایک ایسا انٹرویو بھی ہے جو شہاب الدین دسنوی کی خود نوشت ’دیدہ و شنیدہ‘ سے لیا گیا ہے۔ اسی انٹرویو میں یہ انکشاف بھی ہے کہ رتی جناح کی موت قدرتی نہیں تھی۔ بل کہ انہوں نے خواب آور گولیاں کھا کر خود کشی کی تھی اور اپنی موت کے لیے انہوں نے اپنی سالگرہ کا دن منتخب کیا تھا۔
    ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب میں ’رتی جناح: اسٹوری آف اے گریٹ فرینڈشپ‘ کا پورا متن بطور ضمیمہ دیا گیا ہے۔
    مزید یہ کہ اس میں مسٹر جناح کے نام کانجی کے چار نایاب خطوط بھی شامل ہیں۔
    ان تمام باتوں نےمل کر اس کتاب ’جناح، رتی اور میں‘ کو نایاب، دلچسپ اور اہم بنا دیا ہے۔

    With courtesy of  BBC URDU

    Comments

    Popular posts from this blog

    Spain's nuclear legacy

    sql joins