سندہ کے ہندو، تبدیلی مذہب اور بھرچونڈی- حسن مجتبیٰ

حسن مجتبی

 سندہ کے ہندو، تبدیلیء مذہب  اور بھرچونڈی

”وہ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے، لائین لگائے ،اپنی شلواروں کے ڈھیر ایک طرف رکھ کر،  اپنی باری  آنے کے انتظار میں تھے۔ ادا (بھائي) یہ لوگ ادی (بہن) کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ میرے چھوٹے بھائی گوتم نے مجھ سے پوچھا۔ وہ ادی کو مسلمان بنا رہے ہیں۔ میں نے کہا۔“  یہ ہیں وہ الفاظ جو سندھی زبان کے بڑے افسانہ نگار امرجلیل کے ایک عظ؛م افسانے “سر لاش جو سفر (سرد لاش کا سفر ) میں ہیں  ہیں جو افسانہ انہوں نے دسمبر انیس  سو باہتر میں کندھ کوٹ میں ہندوئوں کے گھروں ، جانوں، عزتوں، املاک  و عبادتگاہوں پر حملوں کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔  لیکن آجکل پاکستان میں عام طور اور سندہ میں خاص طور ہندو برادری کے لوگ اسی افسانے کی حقیقی شکل بنے ہوئے ہیں۔

ہندو لڑکیوں اورر خواتین کی زبردستی تبدیلیء مذہب، پانچ سالہ چھوٹے بچوں سے لیکر ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر کے ہندو  شہریوں کے اغوا برائے تاوان، املاک او رعبادتگاہوں پر حملے اور قتل، خوش شکل اور امیر خاندانوں کے لڑکوں سے زیادتیاں کر کر انکی برہنہ تصویرویں اور وڈیو نکال کر انکو بلیک میل کرنا، سندہ میں ہندو  کیلیے اسکی کی روزمرہ کی زندگی کا معمول بنے ہوئے ہیں۔ 

 ۔ یہ سب کچھ نہ محض محمد علی جناح کی اس  نام نہاد گیارہ اگست کی تقریر کے دعوا کرنے والے ملک میں ہورہاہے ، بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے دنوں میں ہورہا ہے جہاں  بہت سارے تبدیلیء مذہب کے  کیسوں کے پیچھے  حکمران پی پی پی کے ایم این اے اور اپنے عللاقے  کی طاقتور پیر بھرچونڈی  میاں مٹھو عرف فقیر عبد الحق اپنے بندوقباز جتھوں اور بیٹوں  اور دوسرے رشتہ داروں  سمیت شامل ہیں۔
 فقط گذشہ دس دنوں میں تین  ہندو عورتیں اغوا کرلی گئی ہیں جن میں کراچی کے ڈیفینس علاقے سے اغا خان ہسپتال میں امتحان دینے کلیے  آنیوالی ڈاکٹر لتا، جیکب آباد سے عائشہ کماری اور میرپور ماتیھلو سے  رینکل کماری اغوا کرلی گئیں۔ ۔ 

۔نواز شریف سے چالیس لاکھ روپے ینظیر کی پہلی حکومت میں انکے خلاف عدم اعتماد کے دوان لیکر ووٹ نواز شریف کو نہ دینے والے جیالے ایم این اے کے ہاتھوں   بعیت لینے والی رنکل کماری کا نیا نام فریال تالپور کے نام  اب فریال شاہ رکھا گیا ہے۔


اگر کوئی غیر مسلم ہمارے پاس مسلمان بننے کیلیے آتا ہے  اور اسے مسمان بنانے  میں ذرا بھی دیر ہونے سے ہم خود کافر بن  جاتے ہیں۔ ہمیں پھر کلمہ پڑہنا ہوگا۔  اگر ہمارا نکاح ہے تو  اپنی بیوی سے اپنا نکاح پھر سے پڑھوانا پڑے گا۔“ بھتیجوں کی طرف سے چاچا کو قتل کرنے، بھائيوں کے ایک دوسرے کو مسجد کے مناروں پر شست لگار کر فجر کی نماز کے وقت قتل کرنے کی دہائي تک جنگ میں فریق   میاں مٹھو آف بھر چونڈی کا کہنا تھا۔

سابقہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والی میری ایک دوست  نے کہا ”یہ تو 'نسلی قتل عام یا ایتھنک کلینزنگ ہے۔
“جی ہاں۔ اگر بلوچوں کی طرح اب بھی سندہ یا پاکستان کے ہندو اپنی لڑکیوں کی زبردستی تبدیلیء مذہب ، اور خلاف انسانیت زیادتیوں کے باوجود ہندوستان سے مداخلت یا امریکی انگرس میں اپنے انسانی حقوق کی صورتحال پر سماعت کا نہیں کہتے تو پاکستان کو انکا شکر گذار رہنا چاہیے
۔ہندوئوں کے ساتھ زیادتیوں اور رینکل کماری جیسی ہندو لڑکیوں کی زبردستی تبدیلیء مذہب پر زرداری حکومت خصی بنی ہوئی ہے، اور نہ ہی ہندوئوں کو سندھی قوم کا حصہ سمجھنے والے قومپرست او نہ  ہی  اکثر سندھی یا پاکستانی  (سوائے روزنامہ عوامی آواز کے اور آج ٹی وی چینل کے)بھی ہندوئوں کیساتھ  زیادتیوں کے بارے میں کوئي حرکت میں آئے ہیں

-سندہ میں ہندوئوں کی زبردستی تبدیلیء مذہب  سندہ میں تالپوروں کے عہد حکمرانی سے لیکر جدید جمہوریت یا آمریتوں میں بھی نہ محض جبر کہنہ کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ زبردستی تبدیلیء مذہب تھا جو اٹھارہ سو تینتالیس میں سندہ پر برطانیہ کے قبضے کی اہم ترین وجہ بنا تھا۔
ہوا یوں تھا کہ تالپوروں کی حکمرانی میں ہندو سیٹھ نائونمل کے والد کا زبرستی ختنہ کروادیا گیا تھا جسپر نائونمل نے سندہ میں تالپوروں کی حکمرانی میں  زبردستی تبدیلیء مذہب سیت ہندئوں کیساتھ زیادتیوں کی فریاد کرتے ہوئے چارلس نیپیئر کو سندہ پر حملے کی دعوت دی تھی۔ تالپوروں کے دور حکمرانی میں تو ہندو کو اگر گھوڑیسواری کرتے دیکھا جاتا تو اسے زبردستی مسلمان کردیا جاتا کیونکہ تالپور حکمرانی میں یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ گھوڑیسواری صرف مسلمان ہی کرسکتا ہے جبکہ ہندو گدھے پر سواری کرتا ہے۔ محض لفظ ”رسو“ (یعنی رسی) کہنے پر ہندو کا زبردستی مذہب تبدیل کردیا جاتا تھا کہ اس نے ”رسو“ نہیں ”رسول“ کہا ہے اب اس پر لازم ہے کہ وہ مسلمان بن جائے۔  سندہ میں ہندوئوں کے ساتھ اسطرح کی زیادتیاں عام روز مرہ کے معمولات بنی ہوئی تھیں۔
  انگریزوں کےعہد کی پچھلی دہائیاں پھر ہندو-مسلم تفاوت کی صدیاں تھیں جب کئي ہندو بچے اور بچیاں رضاکارانہ یا زبردستی مسلمان بنائے گئے تھے۔ سندہ کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ ہندو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا گھر سے  بھاگ کر یا بھگوا کر مذہب تبدیل کرنا سندہ جیسے کبھی صوفیوں کی سرزمین کہلانے والے خطے میں فرقیوارانہ  بٹوارے کی بنیاد پڑی۔ جبکہ برصغیر کی  آزادی کے دو بڑے رہنما شیخ عبدالمجید سندھی اور ڈاکٹر عبدالرحیم بھی ہندو سے مسلمان بنے تھے ۔ شیخ عبد المجید سندھی جنہوں نے بعد میں ذولفقعار علی بھٹوکے والد سر شاہنواز بھٹو کو شکست دی تھی کے ٹھٹہ میں مسلمان ہونے پر بڑا شور مچا تھا جبکہ سندہ کے ہندو عاملوں کا لڑکا شیخ عبد الرحیم بعد میں ریشمی رومال تحریک  میں افغانستان ہجرت کر گیا اور پھر لوٹ کر نہ آئے۔  شیخ عبدالرحیم آل انڈیا کانگرس کے سابق رہنما اور بھوپال کے گورنر اچاریہ کرپلانی کے بھائی اور باکستان کے سابق  سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ کے رشتے میں چچا تھے۔بی جے پی کے سابق رہنما ایل کے آڈوانی کی رشتے کی ایک بہن نے بھی مذہب تبدیل کر کر شادی حیدرآباد سدہ  میں کی تھی ۔


ریشی رومال تحریک اور سندہ ساگر نربدا  کے بانی اور ہر زمانے کے امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی گھوٹکی ضلع کے ڈہرکی میں واقع درگاہ بھرچونڈی کے بڑے بزرگ حافظ محمد صدیق کے ہاتھوں سکھ سے تبدیلی مذہب کرتے ہوئے مسلمان  ہوئے تھے۔ عبیداللہ سندھی اصل میں ملا و پیر کے اسلام کے برعکس ایک روشن خیال مذہب کے متبادل  ڈسکورس کے بڑے منبع ہیں۔ لیکن انگریز عہد کی پچھلی دہائی میں بھرچونڈی کا نقشہ بدل گیا اور اسکے پیر سندہ کے صوفی و فرقیوراانہ ہم اہنگی کو تار تار کرنے میں پیش پیش رہے۔
بھرچونڈی  سندہ کے اب گھوٹکی ضلع مں کراچی -پشاور قومی شاہراہ پر واقع ایک درگاہ اور روحانی گدی ہے ۔ آپ  سکھر سے باسٹھ میلوں کے فاصلےپر  ڈھرکی میں قومی شاہراہ پر اینگرو یوریا کھاد کے کارخانےکے بعد ایک سائن بورڈ دیکیھں گے ـ”درگاہ عالیہ بھرچونڈی شریف۔“  


سندہ سے ہند تک ایک انتہائي درویش آواز کنور بھگت کو پیر بھرچونڈی کے مریدوں نے شکارپور کے پاس انیس سو انتالیس  میں قتل کردیا تھا۔ لیکن کنور بھگت   جنکی سمادھی بھرچونڈی درگاہ سے قریبی ہی مفاصلے پر رہڑکی میں واقع ہے کو انکے ہندو چاہے مسلمان  عقیدت مندوں نے امر شہید کا درجہ دے دیا اور آل انڈیا ریڈیو کی  سندھی سروس کی ابتدا ہی کنور بھگت کے کلام سے ہوتی تھی۔ یا شاید اب بھی ہوتی ہو۔ 


 بھرچونڈی کے پیر اپنے سجادہ نشین اور بھائی کو قتل کرنے کے بعد کئی برسوں تک گدی کے حصول کیلیے خونریزی میں مصروف رہے تھے۔ جبکہ علاقے  میں کئي قبآئل اور شہریوں کے ساتھ انکی خونریزیاں کئي قتلوں کا موجب بنکر بھرچونڈی اور متاثرہ علقوں کو 'وائلڈ ویسٹ’ کی شکل دیتے رہے ہیں۔  یہ شمالی سندہ کے کائو بوائز ، اور اسلام پھیلانے کے داعی بیک وقت ہیں۔ 

“ہم صوفی لوگ ہیں، ہم ہندو، سکھ، مسلمان سب کچھ ہیں۔ اگر ہماری لڑکی نے رذا خوشی سے شادی کی ہے اور وہ مسلمان ہوئی ہوتی تو ہمیں کوئي دکھ نہیں ہوتا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہماری لڑکی کو زبردستی اغوا کرلیا گیا ہے۔“ رینکل کماری کا ماموں راجمکار کہہ رہا تھا جسے بھی اب قتل کی دھمکیاں ہیں۔  

( courtesy 'Pakistan Post' New York)
With courtesy of  Hasan Mujtaba

Comments

Popular posts from this blog

Spain's nuclear legacy

sql joins