’دلت ملکہ‘ مایاوتی کا مستقبل


’دلت ملکہ‘ مایاوتی کا مستقبل


مایا وتی کی ریلی
مایاوتی گذشتہ سات سالوں سے یوپی کی وزیر اعلی ہیں۔
سیتاپور کے ریاستی انٹر کالج کے احاطے سے یوپی کی وزیراعلٰی مایاوتی نے اپنی انتخابی ریلی کی شروعات کی جس میں لگ بھگ دس ہزار لوگ شامل ہوئے۔ یہ جگہ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے قریب سو کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
جوں ہی یوپی کی وزیر اعلٰی مایاوتی کے ہیلی کاپٹر کی آواز ہزاروں منتظر لوگوں کے کانوں میں پڑتی ہے وہ بہوجن سماج پارٹی کی اپنی رہنما کے لیے ’مایاوتی زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے لگتے ہیں۔
آگے سامنے کی نششتیں خواتین کے لیے مختص ہیں جن میں ایک خاتون مہا جنا بیٹھی ہیں۔ وہ دلت برادری سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں پہلے اچھوت کہا جاتا تھا۔
"وہ لکھنؤ کو لندن بنانا چاہتی ہیں۔ دنیا بھر سے لوگ اسے دیکھنے لکھنؤ آئیں گے"
سونو ورما
مایاوتی بذات خود دلت ہیں اور اپنی ذات کے لاکھوں لوگوں کے لیے طاقت کی علامت کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ پہلے اسکول میں استانی کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔
مایاوتی کی آمد سے ذرا قبل مہاجنا نے روتے ہوئے اپنی درد بھری کہانی سنائی۔
انہوں نے کہا کہ ’میں ستر سال کی بڑھیا ہوں، میرے خاندان میں کوئی نہیں میں اکیلی ہوں اور یہاں بہن جی (مایاوتی) کے پاس بڑی امید لے کر آئی ہوں‘۔
مہاجنا انتہائی غریب لوگوں میں آتی ہیں ان کے پاس ’خط افلاس سے نیچے‘ کے لوگوں کو دیا جانے والا کارڈ ہے جس کے تحت اناج، شکر اور مٹی کا تیل کم قیمتوں پر ملتاہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھیں ’کبھی کچھ نہیں ملا ہے‘۔
مہاجنا اپنی اس حالت زار کا ذمہ دار مایاوتی کو نہیں مانتی جو گزشتہ سات برس سے ریاست میں اقتدار میں ہیں۔
اس جاگیردارانہ، مردوں کے غلبے والی ریاست میں جہاں پہچان کی بنیاد ذات پات ہے اور کاشتکاری اہم پیشہ وہاں مایاوتی ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی سب سے بلندی پر پہنچیں۔
دو ہزار سات کے انتخابات میں انھوں نے ریاست میں چارسو تین نششتوں میں سے بی ایس پی کے لیے دو سو چھ سیٹیں حاصل کر کے اپنے ناقدین کی زبان بند کر دی تھی۔
"مایا وتی کی شبیہ کو اس وقت مزید نقصان پہنچا جب ویکی لیکس نے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنی پسندیدہ جوتی کے لیے ایک خالی طیارے کو ممبئی روانہ کیا۔ وہ بھی ایک ایسی ریاست میں جہاں ساڑھے پانچ کروڑ لوگ ایک ڈالر سے بھی کم روزانہ پر زندگی بسر کرتے ہیں اور تین لاکھ لوگ تو بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔"
گری انسٹی ٹیوٹ آف ڈولپمنٹ اسٹڈیز کے پروفیسر اجیت کمار سنگھ کا کہنا ہے کہ مایاوتی کو کم شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ وہ بیس کڑوڑ آبادی والی ریاست کی رہنما ہیں جو آبادی کے لحاظ سے برازیل کے برابر ہے۔ ان کا شمار دنیا کی چند سب سے زیادہ طاقتور خواتین میں ہوتا ہے۔
 مایاوتی
لیکن حال ہی میں ان کی شبیہ کو نقصان پہونچاہے، ان کی حکومت میں شامل چند وزراء پر بد عنوانی کا زبردست الزام لگا ہے اور صرف چند صنعتکاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان کی شدید تنقید ہو‎ئی ہے۔
اس انتخاب سے قبل مایاوتی نے چھبیس وزاء کو برطرف کیا اور لگ بھگ سو امیدواروں کو ٹکٹ سے محروم کردیا، تاہم ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ اقدام دیر سے اٹھاۓ۔
لیکن ان کی سب سے زیادہ تنقید گلابی سنگ مرر میں تراشی قد آدم مورتیوں اور پارکوں کے لیے کی گئی جن پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔ الکشن کمیشن نے ان کے انتخابی نشان ہاتھی والے پارکوں کو بند کرنے کا حکم دے دیا۔
ان کی شبیہ کو اس وقت مزید نقصان پہنچا جب ویکی لیکس نے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنی پسندیدہ جوتی کے لیے ایک خالی طیارے کو ممبئی روانہ کیا۔ وہ بھی ایک ایسی ریاست میں جہاں ساڑھے پانچ کروڑ لوگ ایک ڈالر سے بھی کم روزانہ پر زندگی بسر کرتے ہیں اور تین لاکھ لوگ تو بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

Spain's nuclear legacy

sql joins