GM Syed: Pakistan's Sufi too as well as rebel too

جی ایم سید: پاکستان کے صوفی بھی باغی بھی

    پاکستان میں شاید وہ واحد بوڑھا شخص تھا جس کے عاشق صادق زیادہ تر نوجوان تھے۔
    غلام مرتضٰی شاہ باالمعروف جی ایم سید جو ہر دم سچل سرمست کی اس سطر ’سچو عشق بڈھا نہ تھیوے بانہویں چٹڑی تھی ونجے ڈاڑھی‘ کی جیتی جاگتی تصویر ہو کر رہے۔
    آج سندھ میں کئی سندھی قوم پرست اور نوجوان سندھو دریا کے اس پار ایک چھوٹے سے شہر سن کی طرف جا رہے ہیں جہاں جی ایم سید ایک کھلی کتاب کی شکل کی سنگِ مرر کی قبر کے نیچے دفن ہیں۔
    سترہ جنوری انیس سو چار کو سن میں پیدا ہونے والے جی ایم سید جب پچیس اپریل انیس سو پچانوے کو سپردِ خاک ہوئے تو ان کے جنازے کے ساتھ قرآن، گیتا، انجیل، توریت اور شاہ جو رسالو بھی ساتھ سفر کرتے رہے تھے۔
    جی ایم سید شاید پاکستان میں وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے کئی برس قبل ہی مذہبی انتہا پسندی کے ملک اور خطے میں خطرات سے متنبہ کر دیا تھا۔
    جی ایم سید وہ پہلے سیاستدان بھی تھے جنہوں نے سرد جنگ کے خاتمے سے قبل کہا تھا کہ سرمایہ دارانہ و اشتراکی بلاکس میں بٹی ہوئی دنیا کے قطع نظر روحانی ممالک کے گروہوں کا بھی ایک بلاک ہونا چاہیے۔ نیز یہ کہ سرد جنگ کے خاتمے پر انہوں نے امنِ عالم کے لیے اقومِ متحدہ کی از سر نو تشکیل کی بات کی تھی۔ یہ بات انہوں نے جنوری انیس سو بانوے میں نشتر پارک کراچی میں اپنی سالگرہ کے جلسے کے دوران کی تھی جسکے فوراً بعد انہیں گرفتار کر کے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ نواز شریف کے دنوں میں شروع ہونی والی ان کی نظر بندی بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران مئی انیس سو پچانوے میں ان کی وفات تک برقرار رہی۔
    سید شاید غفار خان کے بعد اس ملک کے سب سے سینیئر ’غدار‘ تھے۔ سید پاکستانی حکومتوں کے ہر ایک دور میں پاکستان کو ختم کرنے کے الزمات میں قید و نظر بند رہے لیکن ان کی اٹھائیس سالہ قید و نظربندی کے دوران کبھی بھی انہیں کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ ایک ایسا الزام جسے وہ بخوشی قبول کرتے تھے۔
    بینظیر بھٹو کی دورِ حکومت میں سید کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے والے انسدادِ دہشتگردی کے جج نجی طور پر پیغامات بھیجتے رہے کہ وہ برائے مہربانی ان کی عدالت میں پیش نہ ہوں کیونکہ وہ انکے اعترافِ جرم کی صورت میں ان کو سزا دینے کے گنہگار نہیں بن سکتے۔ کراچی میں اپنی رہائش گاہ حیدر منزل پر تو سماعت کے دن وہ تیار ہو کر عدالت کے جانے کے لیے تیار ہو کر بیٹھتے لیکن کبھی بھی پولیس ان کو لینے کے لیے نہیں پہنچی۔
    وہ اپنے خلاف الزامات پر فارسی کا مشہور شعر پڑھا کرتے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’بڑی بھیڑ لگی ہے۔ وہ مجھے قتل کرنے کے لیے لیکر جار رہے ہیں، میرے محبوب تو بھی چھت پر آکر دیکھ کہ کیا نظارہ لگا ہے۔‘
    جی ایم سید بنیادی طور پر ایک صوفی تھے۔ وہ سندھ کے عظیم صوفی مخدوم بلاول کے مرید اور ایک بزرگ حیدر شاہ سنائی کے سجادہ نشین بھی تھے۔ جی ایم سید کی کم عمری میں ہی ان کے والد کو قتل کر دیا گیا تھا اگرچہ انکی تمام تعلیم گھر کی عورتوں کے پاس یا گاؤں کے مکتب میں اور خانگی طور پر مقامی ٹیچروں سے رہی تھی۔ وہ حاضر جواب، بلا کی حس مزاح کے مالک، منجھے سیاستدان اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔
    ان کی کتابوں میں سے ایک جئيں ڈٹھو آہ موں (جیسا میں نے دیکھا) مذاہب عالم اور ان کی تاریخ پر کتاب ہے جو انہوں نے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں لکھی جبکہ انکی ایک اور کتاب ’سندھو دیش چھو آئيں چھا لائے (سندھو دیش کیوں اور کس لیے) انکی ممنوعہ کتابوں میں شامل ہیں۔
    کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جی ایم سید تو شاید مسلمان ہی نہ تھے جبکہ وہ اپنے گاؤں کی مسجد میں بہت عرصے تک نمازوں کی امامت کرتے اور جمعے کے خطبات بھی دیتے رہے۔
    یہی وہ سوچ ہے جسے بنانے میں حکومتوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ایک خطبے کو سن کر انیس سو چھہتر میں گلستان خان نامی شخص اپنے نیفے میں خجنر چپھاّئے شیخ ایاز اور جی ایم سید کو مرنے گیا تھا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں اور ’واجب القتل ہیں‘۔ لیکن جب اس نے سید کو ساری رات کی مجلس کے بعد اشراق و تہجد پڑھتے دیکھا تو اس نے خنجر سامنے میز پر رکھا اور اعتراف کیا کہ وہ کس طرح جنت کمانے نکلا تھا ۔ سید نے بعد میں اس شخص کے خلاف عدالت میں گواہی دینے سے انکار کر دیا۔
    انکے نزدیک سیاست دو قسموں کے تھی۔ ایک عملی یعنی انتخاب و اقتدار کی سیاست اور دوسری آدرشی یا نظریات و اصولوں کی سیاست۔
    نظریات ان کے جیسے بھی تھے اپنے انہی آدرشوں اور اصولوں کے سیاستدان تھے۔ وہ پاکستان میں واحد سیاستدان تھے جو علی الاعلان پاکستان کو توڑ کر اسکی جگہ سندہ کو ’سندھو دی‘ بنانے کی بات کرتے تھے۔
    وہ اپنے ملنے والوں سے کہتے کہ آؤ ملکر دعا کریں کہ پاکستان ٹوٹ جآئے۔ یہ وہی جی ایم سید تھے جو پاکستان کے بانی کے قتل کی افواہیں سن کر کر دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ محمد علی جناح پر قاتلانہ حملے کے منصوبے میں ایک سندھی کے پکڑے جانے پر انہوں نےکہا ’حیرت اس بات کی ہے کہ سندھی بھی انتہا پسند ہو سکتے ہیں۔‘


    With Courtesy of  BBC

    Comments

    Popular posts from this blog

    Spain's nuclear legacy

    sql joins