اوئے نیچے اتر!


اوئے نیچے اتر!


    اس وقت پاکستان کا وزیرِاعظم اختیارات کے اعتبار سے بظاہر کسی بھی سابق وزیرِاعظم سے زیادہ طاقتور ہے۔ مگر ایسی طاقت کس کام کی جو منہ کی چھچھوندر بن جائے ۔ نہ نگلنے بنے نہ اگلنے بنے۔
    بلکل اس ایٹم بم کی طرح جو موجود تو ہے لیکن کسی کے سر پر پھوڑا نہیں جاسکتا۔
    بالکل اس بہو کی طرح جسے سسر بے نقط سنا رہا ہے، ساس چوٹی پکڑ کر کھینچ رہی ہے، خاوند بڑبڑا رہا ہے اور نند جھولی پھیلائے بددعائیں دے رہی ہے۔
    بالکل اس شیر کی طرح جو کہنے کو جنگل کا بادشاہ ہے لیکن ایک طرف سے لگڑ بگا ٹانگ کھینچ رہا ہے، ایک بندر سر پر کود رہا ہے، شکاری کتے گھیرا ڈالے کھڑے ہیں اور ہانکے کا ڈھول قریب سے قریب تر ہو رہا ہے۔
    وزیرِ اعظم اتنا طاقتور ہے کہ صدر اور عدلیہ کو چھوڑ کر کسی کو بھی مقرر، معطل کرسکتا ہے۔ لیکن وہ کرے تو کیا کرے۔ نہ سوچنے کی مہلت ہے، نہ اکڑوں بیٹھنے کی، نہ کھڑا رہنے کی، نہ جھکنے کی اور نہ سینہ تاننے کی۔
    ایوانِ صدر اسے آنکھوں سے اشارے کر رہا ہے خبردار جو تو نے کچھ لکھا۔
    کورٹ نمبر ایک سے آواز آ رہی ہے ابے لکھتا ہے کہ گردن مروڑوں۔
    جی ایچ کیو میمو میں لپٹی گردن پرگرم گرم سانسیں چھوڑ رہا ہے۔
    اپوزیشن سلطان راہی بنی ہوئی ہے اور اتحادی بجلی کے تاروں پر بیٹھے اپنے اپنے پرسکھا رہے ہیں۔
    اٹھارویں ترمیم کی جو بااختیار پوٹلی وزیرِاعظم کے سر پر رکھی گئی تھی، پھٹ چکی ہے۔ اس میں سے کچھ اختیارات سپریم کورٹ نے اڑا لیے ہیں ۔کچھ کو فوج نےگول کرکے فٹ بال بنا لیا ہے اور کچھ بے اختیار صدر کے تصرف میں ہیں۔
    جب اختیارات کی طاقت بے بسی کی زنجیر ہوجائے تو سکندرِاعظم بھی بطور وزیرِاعظم کیا کر لےگا۔ ظاہر ہے شام کو کچھ کہےگا صبح کچھ، کبھی ہنسنے والی بات پر روئےگا تو کبھی رونے والی بات پر دم بخود ہوجائے گا۔ اچانک غصے میں آئےگا اور پھر اپنے ہی غصے پر غصے میں آجائے گا مثلاً:
    کسی کو بھی ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
    میں تو یہ بات صرف سیکرٹری دفاع کے بارے میں کہہ رہا تھا۔
    اسامہ بن لادن چھ سال تک کس ویزے پر پاکستان میں رہا ؟

    اختیارات کی طاقت بے بسی کی زنجیر

    جب اختیارات کی طاقت بے بسی کی زنجیر ہوجائے تو سکندرِاعظم بھی بطور وزیرِاعظم کیا کر لےگا۔ ظاہر ہے شام کو کچھ کہے گا صبح کچھ، کبھی ہنسنے والی بات پر روئےگا تو کبھی رونے والی بات پر دم بخود ہوجائے گا۔
    میرے بیان کو غلط نہ سمجھیں۔ میں نے تو یہ بات مشرف کے بارے میں کہی تھی۔ مشرف دور کے آئی ایس آئی چیف کے بارے میں اگر ایسی بات کروں تو میری زبان جل جائے۔
    مجھے امید ہے کہ عدلیہ ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس سے جمہوری ڈھانچہ خطرے میں پڑ جائے۔
    بڑا افسوس ہوا کہ چیف جسٹں نے مجھے بددیانت اور خائن قرار دیا۔ معافی چاہتا ہوں چیف جسٹس نے نہیں بلکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مجھے بددیانت اور خائن قرار دیا۔
    میں نے تو منت کر کے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو ملازمت میں توسیع دی تھی بھلا ان پر کیسے تنقید کرسکتا ہوں۔
    جنرل کیانی اور پاشا نے براہِ راست عدالت میں حلفی بیانات داخل کرکے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
    معاف کیجئے میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ اصل میں ساری آگ سیکرٹری دفاع نے لگائی۔ جنرل کیانی اور پاشا کا کوئی قصور نہیں۔ سیکرٹری دفاع کو برطرف کردیا گیا ہے۔ اب سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ لا لا، لی لی، لولو۔
    اور یہ جو آئی ایس پی آر نے جنرل کیانی اور پاشا پر میرے الزامات جھٹلاتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے الزامات کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں تو اس بیان پر بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔اسے جاری کرنے سے پہلے جنرل کیانی نے فون پر مجھ سے بات کی اور میں نے اجازت دی کہ آپ وضاحتی بیان جاری کرسکتے ہیں۔
    ایک صاحب بہترین سا سوٹ پہنے گلی سے گذر رہے تھے۔ اچانک اوپر سے کسی نے باسی دال پھینک دی۔ ان صاحب نے چیختے ہوئے کہا اوئے کون بے غیرت اندھا ہے جس نے میرا سوٹ برباد کر دیا۔ مرد کا بچہ ہے تو نیچے اتر، تجھے مزا چکھاؤں کمینے۔
    ایک سوا چھ فٹ کا پہلوان نیچے اترا۔
    اوئے کسے گالی دے رہا تھا باؤ ؟
    کسی کو نہیں سر جی۔ میں تو بس یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ دال بہت لذیذ ہے۔ ذرا سی اور مل جائے تو مزہ آجائے۔

    With Courtesy of BBC

    Comments

    Popular posts from this blog

    Spain's nuclear legacy

    sql joins