پروفیسر سٹیفن ہاکنگ
پروفیسر سٹیفن ہاکنگ
کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی اور نظریاتی طبعیات کے پروفیسر سٹیفن ہاکنگ کو نظریاتی فزکس میں آئن سٹائن کے بعد سے سب سے باصلاحیت سائنسدانوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔
انہوں نے 12 اعزازی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور 2009 میں امریکہ میں انہیں سب سے اعلیٰ سول اعزاز صدارتی میڈل سے نوازا گیا تھا۔
ایک طرف ان کی تعلیمی کامیابیاں ہیں تو دوسری جانب ان کے طبی کامیابیوں کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔
آج اتوار کو وہ اپنی 70 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ 1963 میں جب انہیں موٹر نیورون کا مرض لاحق ہوا تو اس وقت طبی ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ وہ صرف چند ماہ ہی زندہ رہ سکیں گے۔انہوں نے 12 اعزازی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور 2009 میں امریکہ میں انہیں سب سے اعلیٰ سول اعزاز صدارتی میڈل سے نوازا گیا تھا۔
ایک طرف ان کی تعلیمی کامیابیاں ہیں تو دوسری جانب ان کے طبی کامیابیوں کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پروفیسر ہاکنگ اس بیماری کے ساتھ تقریباً نصف صدی تک زندہ رہے جو آہستہ آہستہ جسم کے ان پٹھوں کو کمزور کرتی ہے جو اعصاب کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کا اس طرح زندہ رہنا ایک معجزہ ہے۔
پروفیسر سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ’میں خوش قسمت ہوں کہ میری حالت دوسروں کے مقابلے جلدی خراب نہیں ہو رہی لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو امید نہیں چھوڑنی چاہئیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھ سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ اس بیماری کے ساتھ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اور میرا جواب ہوتا ہے کہ میں جتنا ممکن ہو سکے میں نارمل زندگی جینے کی کوشش کرتا ہوں‘۔
ڈاکٹروں کوابھی یہ معلوم نہیں اس بیماری کی وجہ کیا ہوتی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ پانچ فیصد لوگوں میں یہ بیماری موروثی ہوتی ہے، مطلب وہ ایک نسل سے دوسرے پاس ہو جاتی ہے۔
لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کسی ایسے شخص کو جو پہلے بالکل صحت مند ہو اچانک یہ بیماری کیسے لاحق ہو جاتی ہے۔
پروفیسر سٹیفن ہاکنگ پر اس بیماری کی علامتیں ان کی اکیسویں سالگرہ سے پہلے ظاہر ہونی شروع ہوئیں۔ ابتدا میں یہ علامتیں بہت واضح نہیں تھیں لیکن آہستہ آہستہ بیماری نے زور پکڑنا شروع کر دیا۔
اس مرض کی تشخیص سے انہیں بڑا جھٹکا لگا لیکن پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’میں نے یہ سوچ کر زندگی سے زیادہ لطف اندوز ہونا شروع کر دیا کہ زندگی بہت چھوٹی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ منگنی نے میری زندگی کو تبدیل کر دیا کیونکہ اب مجھے جینے کے لیے ایک مقصد مل گیا تھا‘۔
1974 تک ، پروفیسر ہاکنگ اور ان کی بیوی جین جو اس وقت تک ان کے تین بچوں کی ماں بن چکی تھی اس بیماری سے کسی نہ کسی طرح نمٹتے رہے۔
پروفیسر ہاکنزاب بھی خود ہی کھا پی سکتے تھے اور تھوڑا بہت چل سکتے تھے۔لیکن جب آہستہ آہستہ حالات بگڑتے گئے، ان پٹھے کمزور پڑنے لگے تو ان کی بیوی نے پروفیسر ہاکنگ کے ایک طالب علم کو مدد کے لیے اپنے گھر میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔
گھر میں مدد کے بدلے میں ان طالب علموں کو پروفیسر کی طرف سے مفت رہائش اور ذاتی ٹیوشن دی جاتی تھی۔
اگلے چند سالوں کے دوران یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس خاندان کے پیشہ ورانہ نرسنگ یا مدد کی ضرورت ہے اور پروفیسر ہاکنگ کی زندگی اب وہیل چیئر پر گزرے گی۔
اس کے بعد 1985 میں پروفیسر ہاکنگ کو نمونیا ہو گیا۔ان کے پھیپھڑوں میں انفیکشن کے سبب انہیں سانس لینے میں مشکل ہونے لگی۔
ایسے حالات میں اکثر مریض زندگی کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں لیکن پروفیسر ہاکنگ نے ہار نہیں مانی۔ان کی جان تو بچ گئی لیکن قوتِ گویائی نہ رہی۔
دوسرے لوگوں کی طرح پروفیسر ہاکنگ کی زندگی میں بھی کئی اتار چڑھاؤ آئے۔چھبیس سال کی شادی کے بعد سنہ انیس سو نوے میں ان کی بیوی جین اور ان کے درمیان طلاق ہو گئی۔ پانچ سال کے بعد انہیں ایک اور شادی کی اس مرتبہ اپنی ایک نرس کے ساتھ، لیکن گیارہ سال بعد انہیں ایک بار پھر طلاق ہو گئی۔
کہا جاتا ہے کہ اس رشتے کے دوران پروفیسر ہاکنگ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کی پروفیسر تردید کرتے ہیں۔ان کی زندگی میں اگر کوئی چیز مسلسل برقرار تھی تو وہ تھا ان کا کام اور ستر سال کی عمر میں بھی وہ رکنے کا نام نہیں لیتے۔
پروفیسر ہاکنگ جو تین بچوں کے دادا ہیں آج بھی نئے چیلنجز کی تلاش میں رہتے ہیں۔
With Courtesy of BBC
Comments
Post a Comment