دلیّ: برطانوی راج میں فنِ تعمیر
یوں تو سنہ انیس سو گیارہ میں برطانوی راج کے دارالحکومت کو کولکتہ سے دّلی منتقل کرنے سے پہلے ہی مغل، لودی اور راجپوت حکمرانوں کے ادوار میں دّلی کے طرز تعمیر میں چار چاند لگ چکے تھے۔ تصویر جامع مسجد دلی۔
جب 12 دسمبر 1912 میں کنگ جارج پنجم نے نئی دلّی کی بنیاد رکھی تو اس پر لکھا گیا ’یہ میری تمنا ہے کہ جب نیا دارالحکومت بنایا جائے، تو اس شہر کی خوبصورتی اور قدیم امیج کو ذہن میں رکھا جائے تاکہ یہاں نئی عمارتیں اس شہر میں کھڑی ہونے کے قابل لگیں۔‘
جب برطانیہ نے دلّی میں تعمیراتی کام شروع کیا تو ان کا مقصد تھا کہ اپنی شاندار عمارتوں سے اپنے رتبے کو دکھایا جائے۔’لٹينس دہلی‘ کی فضا سے لی گئی اس تصویر میں پارلیمنٹ کی عمارت، صدارتی محل، شمالی اور جنوبی بلاک صاف دکھائی دیتے ہیں۔
ایڈون لٹينس بیشتر شاہی عمارتوں کے چیف آرکیٹیکٹ تھے اسی لیے برطانوی راج میں تعمیر کیے گئی نئی دلّی کو آج بھی لٹینس دلی قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ ہبرٹ بیکر اور رابرٹ ٹار رسل جیسے فن تعمیر کے ماہر کا بھی نئی دہلی کی طرز تعمیر کو بیان کرنے میں اہم رول رہا۔
جہاں اس وقت کے وائسرائے لارڈ ہارڈنگ اور کنگ جارج پنجم مغل طرز تعمیر کو بے حد پسند کرتے تھے، وہیں لٹينس کو وہ خاصی پسند نہیں آئی تھی. پھر لارڈ ہارڈنگ کی ضد کے آگے جھک کر لٹینس کو اپنے کام میں بھارتی فن تعمیر سے سبق حاصل کرنا پڑا۔ (تصویر میں ہمایوں کا مقبرہ)
یہی وجہ ہے کہ برطانوی عمارتوں میں ایک طرف جدید عناصر سے متاثر كھبے اور کھڑکیاں دکھائی دیتی ہیں تو وہیں راجپوت اور مغل طرز تعمیر سے متاثر چھجے، چھترياں اور جالياں بھی دکھائی دیتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ لٹينس نے وائسرائے ہاؤس (صدارتی محل) کے اوپر بنے گبند نما ڈھانچے کی ترغیب سانچي سٹوپا سے لی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ لٹينس نے وائسرائے ہاؤس (صدارتی محل) کے اوپر بنے گبند نما ڈھانچے کی ترغیب سانچي سٹوپا سے لی تھی۔
شاہی عمارتوں کو بنانے کے لیے راجستھان کے دھول پور ، بھرت پور اور آگرہ سے پتھر لایا گیا تھا۔
برطانوی راج کے ہندوستان حکمرانوں کا رہائش ، وائسرائے ہاؤس یعنی صدارتی محل کے تعمیراتی کام میں تقریبا 29،000 مزدوروں کو کام پر لگایا گیا۔
صدارتی محل کی طرزِ تعمیر کے بارے میں ایڈون لٹينس اور ہبرٹ بیکر کے درمیان خاصی بحث ہوئی جس کے بعد دونوں کے راستے الگ ہو گئے تھے۔
ہبرٹ بیکر نے پارلیمنٹ کی عمارت کو بنایا تھا۔ اسی شاندار اور وسیع عمارت کے اندر کبھی برطانوی حکمرانوں نے بھارت کے لیے قانون بنائے تھے اور آزادی کے بعد بھی اسی عمارت میں جمہوری ملک کے قانون بنائے جاتے رہے ہیں۔
ہبرٹ بیکر نے ہی سرکاری افسران کے لیے وسیع بنگلوؤں کو ڈیزائن کیا تھا۔ آج بھی انہی عظیم مکانات میں سیاستدانوں اور افسروں کی رہائش ہے۔
آل انڈیا وار میموریل یعنی انڈیا گیٹ کو 1931 میں بنایا گیا تھا۔ اس بڑے ڈھانچے کو ایڈون لٹينس نے ڈیزائن کیا تھا۔ آزادی کے بعد 1972 میں بھارت -- پاک جنگ کے بعد انڈیا گیٹ کے احاطے میں امر جوان جیوتی لگائی گئی تھی۔
کناٹ پلیس کو تعمیر کرنے والے رابرٹ ٹار رسل کا نام بھی نئی دلی کی تعمیر کی ایک اہم کڑی ہے۔ آرکیٹکٹ سنے ہانشو مکھرجی کے لفظوں میں کہیں تو کناٹ پلیس دّلی کا ڈرائنگ روم ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں شہر میں تعمیر کیے گئے ایک سے ایک شاپنگ مال بھی کناٹ پلیس کی شان اس سے چھین نہیں پائے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد مہاتما گاندھی چاہتے تھے کہ وائسرائے ہاؤس کو صدارتی محل کے بجائے ایک سرکاری ہسپتال میں بدل دیا جائے، لیکن نہرو اس سے متفق نہیں ہوئے تھے۔
فنِ تعمیر کے نامور کہتے ہیں کہ جہاں برطانوی حکمران طرزِ تعمیر میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ آزاد بھارت میں جواہر لال نہرو کے بعد شاید ہی کسی سیاستدان نے شہری منصوبہ بندی اور اس کی عمارتوں کی طرزِ تعمیر پر توجہ دی ہو۔
آزادی کے بعد ہونے والے تعمیراتی کاموں میں مغربی طرزِ تعمیر کی جھلک کھائی دیتی ہے۔ شاستری بھون اور محکمہِ زراعت کی عمارت اس بات کا ثبوت ہیں۔
صرف اکشردھام مندر اور بہائی مندر ہی آزادی کے بعد کی وہ دو عمارتیں ہیں، جو یہاں آنے والے سیاحوں کی یادوں پر اپنے نشان چھوڑنے میں کامیاب رہی ہیں۔
معیشت میں اصلاحات یا لبرل ازم کے دور کے بعد شيشےنما ڈبے جیسی نظر آنے والی عمارتیں شہر میں عام ہو گئی ہیں۔ کچھ آرکیٹیکٹ اسے ترقی کی نشانی مانتے ہیں، تو کچھ اسے تاریخ کی توہین۔
With courtesy of BBC URDU
With courtesy of BBC URDU
Comments
Post a Comment