رجنیش: امیروں کا بھگوان
رجنیش: امیروں کا بھگوان
نام کتاب: ایک روحانی گمراہ صوفی کی آپ بیتی
مصنف: اوشو (گرو رجنیش)قیمت: 400 روپے
ناشر: آصف جاوید
برائے: نگارشات پبلشرز، 24 مزنگ روڈ، لاہور
وہ رولس رائس کاروں میں گھومتے اور ذاتی طیارے میں سفر کرتے ہیں۔ ان کے ماننے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی اور مخالفین بھی کم نہیں تھے
ان کی کتابیں اور ہزاروں گھنٹوں پر مشتمل ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگز ہیں۔ ان کا بیان سادہ اور اثر انگیز ہے۔
یہ کتاب جو ان کی آپ بیتی کہلاتی ہے ایک خطرناک کتاب ہے، یہ آپ اتنا متاثر بھی کر سکتی ہے کہ زندگی کے بارے میں آپ کے بنیادی تصورات ہی بدل جائیں۔ یہ آپ کو بتاتی ہے کہ غربت اور افلاس میں پیدا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ آپ کو اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کے بارے میں علم کب ہوتا ہے، کتنا ہوتا ہے، اس پر کتنا اعتبار کرتے اور اسے کیسے استعمال کرتے ہیں۔
اوشو بتاتے ہیں کہ ’ماضی میں بچوں کی شادیاں دس برس کی عمر سے پہلے ہی ہو جایا کرتی تھیں، بعض اوقات تو بچے ماؤں کی کوکھ ہی میں ہوتے تھے کہ بیاہ دیے جاتے۔ خود میری ماں کی شادی سات برس کی عمر میں ہو گئی تھی، میرا باپ دس برس سے زیادہ کا نہیں ہوگا‘۔
سلسلہ اسی پر ختم نہیں ہوتا۔ ان کے والدین کی شادی کے دو برس بعد ہی ان کی دادی کا انتقال ہو گیا اور وہ نو سالہ بہو کے لیے دو لڑکے اور دو لڑکیاں اور چھوڑ گئیں جو سب ان سے چھوٹے تھے۔
ان حالات میں اوشو پیدا ہوئے تو ان کے نانا نانی کو خیال آیا کہ ان کی اکلوتی بیٹی کے پاس تو پہلے ہی چار بچے ہیں وہ اس پانچویں کی دیکھ بھال کیسے کر پائے گی۔ اس لیے انہوں نے اوشو کو مانگ لیا۔
اب اوشو کو بوڑھے اور قدرے خوش حال ماں باپ میسر آ گئے۔ جن کے پاس قدرے بہتر گھر بھی تھا اور ملازم بھی۔ پھر مزاجاً بھی ان کے نانا نانی مختلف تھے۔
انہوں نے کبھی اوشو سے کسی بات کے لیے اصرار نہیں کیا جیسے عام طور پر بزرگ یا والدین کرتے ہیں۔ وہ جو بھی کرتے ان کا دھیان رکھا جاتا خود اوشو کے الفاظ میں تینوں بوڑھے ایک دوسرے کو اشاروں میں کہتے رہتے ’اسےپریشان مت کرو، وہ بہت لطف اندوز ہو رہا ہے‘۔ اوشو زیادہ تر چپ رہتے تھے اور وہ ان کی خاموشی سے محبت کرنے لگے تھے۔
اس کے علاوہ نانا نانی حقیقی معنوں میں روشن خیال تھے انہوں نے اوشو پر اپنے دھرم تک کا بوجھ نہیں ڈالا۔ ان کی نانی کھجوراہو کے تانترک خاندان سے تھیں۔ تانترک مراقبے تو کرتے ہیں لیکن کسی مذہب یا دھرم کو نہیں مانتے۔ مذہب اور دھرم لازماً خوف اور لالچ پر استوار ہوتے ہیں۔ ان کی بنیادی منطق کم و بیش ایسی ہی ہوتی ہے، یہ کرو تا کہ ایسے ہو جاؤ، تا کہ موت کے بعد تمہاری زندگی ایسی ہو تا کہ تمہارا اگر کوئی جنم ہو تو تم اس سے بہتر ہو وغیرہ وغیرہ۔
اوشو جب سکول گئے تو ان کی عمر نو سال ہو چکی تھی۔ ان کی زبان بھی اپنی عمر سے زیادہ چلتی تھی اور دماغ بھی۔ وہ جو کچھ ان دنوں کے بارے میں بتاتے ہیں وہ بڑی حد تک ناقابلِ یقین لگتا ہے۔
اوشو کا کہنا ہے کہ انہیں 1953 میں گیان حاصل ہوا، جب کہ انہوں نے یونیورسٹی سے فلسفے میں تعلیم 1957 میں مکمل
کی۔
اسی سال انہیں رائے پور کے کالج میں فلسفے کی تدریس کے لیے منتخب کر لیا گیا لیکن سال بھر میں ہی وائس چانسلر کو لگنے لگا کہ ان کی تدریس طلبہ کے لیے خطرناک ہے اس لیے ان کا تبادلہ کر دیا گیا، اسی سال وہ جبل پور یونیورسٹی چلے گئے اور فلسفہ پڑھانے لگے۔ اس سارے عرصے کے دوران وہ ہندوستان بھر کے دورے کرتے اور ایسے لیکچر دیتے رہے جن میں گاندھی کی تعلیمات، ہندوستان میں پائے جانے والے مذاہب، دھرموں اور سوشلزم کے تصورات کی کھل کر مخالفت ہوتی تھی۔ ان باتوں سے ان کی عام مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ وہ اچاریہ رجنیش کہلانے لگے۔
اس سلسلے نے انہیں دولت مند مداح دیے جو ان پر اتنا اعتبار کرنے لگے کہ ان سے اپنے روحانی مسائل میں رہنمائی مانگنے لگے۔ 1970 میں وہ ممبئی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے مراقبوں کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔
ممبئی ہی میں انہوں نے اچاریہ رجنیش کی جگہ بھگوان شری رجنیش کا نام اختیار کیا۔ لیکن آب و ہوا راس نہ آنے کی وجہ سے وہ 1974 میں پونا منتقل ہو گئے۔ جہاں ان کے مراقبوں اور لیکچروں کا سلسلہ پندرہ سال تک جاری رہا جس کے بعد انہوں نے ساڑھے تین سال تک لوگوں سے بات چیت بند کر دی۔
1981 میں وہ امریکہ منتقل ہو گئے جہاں ان کے مداحوں نے ان کے لیے ایک بہت بڑا علاقے خریدا اور ان کے نام پر ایک الگ شہر آباد کرنا شروع کر دیا لیکن یہ تعمیر متنازع بن گئی، ان پر غیر قانونی سرگرمیوں، یہاں تک کہ قتل تک کا الزام لگایا گیا۔
اوشو، ان کے ڈاکٹر اور کئی ساتھوں کو میں گرفتار کر لیا گیا۔ اوشو کو اس یقین دہانی پر معطل سزا دی گئی کہ وہ امریکہ چھوڑ کر چلے جائیں اور 1987میں وہ پونا میں اپنے آشرم لوٹ آئے۔ اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔
اوشو کی زندگی
ایک جملے میں وہ 11 دسمبر 1931 کو ایک گاؤں میں آئے اور لاکھوں لوگوں کو اتنا متاثر کیا ( کہ وہ اب تک ان کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں) اور 59 سال بعد 19 جنوری 1990 کو چلے گئے۔
اوشو کی زندگی کی یہ کہانی نہ تو انہوں نے بیان کی ہے اور نہ ہی یہ روایتی قسم کی بائیوگرافی ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں ساریتا کیرول کہتی ہیں۔
’اوشو سے کئی مرتبہ دریافت کیا گيا کہ وہ اپنی آپ بیتی کیوں نہيں لکھتے ہیں یا کم از کم سلسلہ وار انٹرویوز ہی کیوں نہیں دیتے ہیں تا کہ لوگ ان کی زندگی سے واقف ہو سکیں۔ اس طرح کے سوالوں کو وہ ہمیشہ ہاتھ کی ایک بے نیازانہ جنبش سے مسترد کر دیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے وقت کی حدود سے بے نیاز حقائق اہم ہوا کرتے ہیں اخبارات کے تراشے نہیں جنھیں ہم تاریخ کا نام دیتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی کی کہانی، سینکڑوں کی تعداد میں شائع شدہ تقریروں سے اخذ کی جا سکتی ہے اور اس کتاب کی ترتیب میں یہی طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں کچھ ایسی غلطیاں ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب کو مرتب کرنے والے اپنے تمام تر خلوص کے باوجود کچھ باتوں سے لا علم تھے جسے مترجم نے اوشو کی لا علمی کے زمرے میں ڈالا ہے لیکن ان باتوں کے باوجود یہ کتاب ایک انتہائی دلچسپ، پُر لطف اور پُر احتیاط مطالعہ ہے۔
With Courtesy of BBC
Comments
Post a Comment