میمو، لاتیں، گھونسے اور فوج کا مورال: تحریر ندیم سعید
میمو، لاتیں، گھونسے اور فوج کا مورال: تحریر ندیم سعید
Published on 17. Dec, 2011
پاکستانی نژاد امریکی منصور اعجاز میمو کی ڈگڈی بجا رہے ہیں اور پوری دنیا بندر کا تماشا دیکھ رہی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس میں بندر کون ہے۔ پاکستانی قوم جس کا ہمارے دائیں بازو کے پنجابی دانشور ، لکھاری اور صحافی ڈھول بجاتے رہتے ہیں بہت نازک مزاج ہے اور اس سے کہیں زیادہ نازک پنجاب سے ہی تعلق رکھنے والی پاکستانی فوج کا مورال ہے جو بات بات پر گر جاتا ہے۔انہیں پاکستانیوں جو بوجہ تفریح طبع کثرت آبادی کی بنیاد پر سندھیوں ، بلوچوں، پشتونوں اور سرائیکیوں کو اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھتے ہیں کااپنا کنٹرول دوسروں کے ہاتھوں میں رہتا ہے، اور بعض اوقات مضحکہ خیز طور پر۔ دنیا کے کسی دوردراز کونے میں چھپنے والی کسی متنازعہ کتاب یا کارٹون سے کاروبار زندگی معطل کر بیٹھتے ہیں اور اپنی ہی املاک کا جلاؤ گھیراؤ کر کے بہادری کی دھاک بیٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے بہادروں کی سپاہ اور اس کے سورماؤں کا مورال تو کانچ سے بھی زیادہ نازک واقع ہوا ہے اور اس کا خمیازہ سب بھگتے آ رہے ہیں لیکن اس نزاکت میں کمی واقع ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ مملکت خداداد پاکستان کے سپہ سالار نے ’میموگیٹ‘ کیس میں سپریم کورٹ کو جو جواب داخل کرایا ہے اس کا اختتام اس بات ہر ہوتا ہے کہ ’میمو کے ذریعے فوج کا مورال گرانے کی سازش کی گئی ہے‘۔
مجھے اپنی صحافیانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فوج کے کمزور مورال کا بارہا اندازہ ہوا، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کروایا گیا تو زیادہ بہتر ہوگا۔
مئی دوہزار تین میں جب میں اخبار ’ڈان‘ کے لیے کام کر رہا تھا تو ملتان کینٹ بازار میں کپڑوں کی ایک دکان ’شہزاد فیبرکس‘کے باہر ایک بورڈ ’Out of bound for all ranks‘ اور ملٹری پولیس کے دو باوردی اہلکاروں کو دکان کے باہر ڈیوٹی پر دیکھا تو تجسس ہوا کہ ماجرا کیا ہے۔معلوم یہ ہوا کہ کچھ روز قبل اسی دکان کے باہر ٹریفک پولیس کے ایک کانسٹیبل نے دو موٹر سائیکل سوار نوجوانوں کا ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر چالان کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی پٹائی کردی۔ دونوں نوجوان فوجی کیڈٹس تھے۔
پولیس حکام نے ملتان کور کے حکام سے رابطہ کرکے واقعہ کی شکایت کی تو ادھر سے جواب ملا کہ’ہمارے جوانوں کا کہنا ہے کہ غلطی پولیس والے کی ہے‘۔ خیر تنازعے کو نبٹانے کے لیے تین رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی جس میں دو فوجی اور ایک پولیس افسر شامل تھے۔ کہا گیا کہ واقعہ کے بارے میں اگر کوئی گواہی دینا چاہے تو اس ٹیم یا ٹریبونل کو بیان ریکارڈ کراسکتا ہے۔ دو دن گزر گئے لیکن کوئی نہ آیا، بھلا اس لڑائی میں کون نشانہ بننا پسند کرتا۔ لیکن شہزاد فیبرکس کے مالک کینڈا پلٹ تھے اور گواہی دینا اپنا قانونی فرض سمجھا۔ انہوں نے جو دیکھا بیان کردیا جس کے تحت قصوروار فوجی کیڈٹس ٹھہرتے تھے۔
اب یہ پتہ نہیں چلا کے ان کیڈٹس کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں لیکن ملتان کور نے شہزاد فیبرکس کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ملٹری پولیس کی ڈیوٹی لگا دی کہ بورڈ پر لکھی وارننگ پر عملدرآمد بھی کرائیں۔میں نے تصویر سمیت سارے واقعہ کی خبر بنا دی، جو اگلے روز ڈان میں چھ کالمی سرخی ’Martial Law Imposed on a Cantonment Shop‘ کے ساتھ شائع ہوئی۔ ملتان میں ڈان دن کے دس یا گیارہ بجے پہنچتا تھا لیکن مجھے کوئی صبح سات بجے آئی ایس پی آر سے فون آنا شروع ہوگئے کہ آپ نے یہ کیا کردیا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ کور حکام سخت غصے میں ہیں۔یہ وہ وقت تھا جب جنرل مشرف مغرب کے سامنے خود کو جمہوریت پسند بن کر دکھانا چاہ رہے تھے۔
ملتان میں آئی ایس پی آر کے اس وقت کے انچارج نے فوج میں شمولیت سے پہلے کچھ عرصہ ڈان میں کام کیا ہوا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس اخبار کو دبانا آسان نہیں، اس لیے وہ بے چارے ایک طرف اپنے افسروں کو ٹھنڈا کرنے کو کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف مجھے سمجھانے کی کہ میں کور آکر اپنے کیے کی وضاحت کردوں۔ اس دوران ملتان میں ڈان کے آفس کے باہر چھ سات جوانوں کو بٹھائے ایک فوجی ویگن نے ڈیوٹی دینا شروع کردی۔
ابھی یہ سب کچھ جاری تھا کہ پتہ چلا کے ملتان بہاولپورہائی وے پر فوجی جوانوں نے ہائی وے پولیس کے ایک سب انسپکٹر کو اس وقت بری طرح پیٹ دیا جب اس نے مقررہ رفتار سے تیز گاڑی چلانے پر ایک فوجی گاڑی کا چالان کردیا۔سب انسپکٹر نشتر ہسپتال کی ایمرجنسی میں داخل تھا۔ میں اپنے فوٹو گرافر ساتھی شاہد بشیر کے ساتھ وہاں گیا تو دیکھا کہ فوجی مکوں سے اس کی ایک آنکھ سوج کر نیلی تھی جبکہ اس کے سارے جسم پر بھی نیل تھے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کی متاثرہ آنکھ کی بینائی ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ میں نے وہاں کھڑے ہوئے سوچا کہ یہ اصول پسند سب انسپکٹر اپنے بیوی بچوں کو کیا بتائے گا کہ انہیں کی فوج نے اس کا یہ حشر کیا ہے۔
میں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ میں اس زیادتی کو رپورٹ نہ کروں کہ فوج پہلے ہی میرے دفتر کے باہر کھڑی رہتی ہے۔ اس دفعہ میں نے ڈان کے ساتھ ساتھ بی بی سی کو بھی اس واقعہ کی خبر دی۔ اب میرا قصور ناقابل معافی ہوچکا تھا، دباؤ بڑھتا جا رہا تھا اور میری حب الوطنی پر سوال اٹھائے جا رہے تھے جیسے شہزاد فیبرکس اور سب انسپکٹر والے واقعات رپورٹ کر کے میں نے کوئی غداری کر لی ہے۔ آئی ایس پی آر کے انچارج نے لیکن ’سفارت کاری‘ جاری رکھی جو میرے اور ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار کے درمیان ملاقات کے نتیجے میں سامنے آئی۔ مجھے ملنے میں کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن میں رضاکارانہ طور پر ’مسنگ پرسن‘ نہیں بننا چاہتا تھا۔
ملاقات خیر خوشگوار ماحول میں ہوئی لیکن میری حیرانی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب مجھے بتایا گیاکہ میرے حالیہ اقدامات سے جوانوں کا مورال گرنے کا خدشہ ہے’اور ایسی صورتحال میں دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے‘۔
یعنی جوانوں کا مورال ہائی رکھنے کے لیے Bloody Civilians لاتیں، گھونسے اور معاشی بائیکاٹ سہتے رہیں۔
فوج کا مورال گرانے کا ایک اور الزام مجھ پر اس وقت لگا جب میں نے مشرف دور میں میپکو (ملتان الیکٹرک پاور کمپنی) کے ایک سربراہ جو اس وقت حاضر سروس بریگیڈئر تھے کی بدعنوانی کے بارے میں خبر دی۔ میپکو کی ایک ٹیم نے اس انٹیلیجنس رپورٹ پر ملتان کے بہاولپور روڈ پر واقع ایک بنگلے پر چھاپہ مارا کہ وہاں بجلی چوری کی جا رہی ہے۔ چھاپہ مار ٹیم نے اطلاع کو درست پایا اور اس بنگلے کی پاور سپلائی منقطع کردی۔ یہ کوئی خبر نہیں تھی۔
لیکن خبر اس وقت بنی جب پتہ چلا کہ اس بنگلے کی بجلی فوری طور پر بحال کردی گئی ہے جبکہ چھاپہ مار ٹیم کے تمام اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔ وہ بنگلہ جس کی بجلی منقطع کی گئی تھی وہاں میپکو کے سربراہ جناب بریگیڈئر صاحب خفیہ طور پر اپنی شامیں گزارتے تھے جس کا چھاپہ مارنے والے اہلکاروں کو قطعاً علم نہ تھا۔ ڈان میں یہ خبر چھپی تو پہلے تو اس کی تردید کے لیے ادھر ادھر سے دباؤ ڈلوایا گیا۔ لیکن جب کام نہ بنا تو ایک پریس ریلیز جاری کیا گیا کہ میں اپنے ایک ایس ڈی او دوست کی ترقی کروانا چاہتا تھا جو بریگیڈئر صاحب نے کرنے سے انکار کردیا اور اب میں اس کا انتقام لے رہا ہوں۔ میں نے پریس ریلیز اپنے ایڈیٹر کو بھیج دیا جنہوں نے اسے چھاپنا مناسب نہ سمجھا، البتہ مجھے کہا کہ اگر کوئی فالو اپ ہو تو فائل کرتے ہوئے ڈرنا نہیں۔ چنانچہ اس واقعہ کے کئی فالواپ بھی ڈان میں شائع ہوئے۔
بریگیڈئر صاحب جو میجر جنرل بننے کی دوڑ میں تھے نے مجھے اور ڈان کو فریق بناتے ہوئے ملتان کی ایک عدالت میں دو اڑھائی کروڑ کا دعویٰ کر دیا۔ میں نے اپنی رپورٹس کے حق میں سارے ڈاکومنٹس ڈان کے لیگل ایڈوائزر کو بھیج دیئے ، جو لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق جج تھے۔ ڈاکومنٹس دیکھنے کے بعد انہوں نے کیس لڑنے کا فیصلہ کیا ، لیکن بریگیڈئر صاحب کے وکیل ایک دو پیشیوں کے بعد آنا چھوڑ گئے۔ بریگیڈئر صاحب کے دعوے کا بھی سارا زور اسی پر تھا کہ خبروں کے ذریعے فوج کے وقار کو مجروع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے فوج کا مورال متاثر ہوتا ہے اور دشمن کو فائدہ۔
فوج کا مورال گرنے سے یقیناًدشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن یہ مورال نہ تو جنرل مانک کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے گرتا ہے نہ سیاچن گنوانے پر اور نہ ہی کارگل پر مات کھانے سے۔ اس کا مورال ہائی رکھنے کے لیے ملتان کا سب انسپکٹر لاتے گھونسے کھا کر بھی مقدمہ درج کرانے کی جرات نہیں کرتا، شہزاد اپنی کپڑے کی دکان بند کر کے کینڈاواپس جانے کا سوچتا ہے ، حقانی مستعفی ہوتا ہے اور زرداری بیمار ہوکر دبئی پہنچتا ہے۔
یوں کرپشن کا سامنا کرنے والے اس جنرل نے میر شیکل الرحمن، ایڈیڑ سلیم بخاری اور میک لودھی پر دہشت گردی عدالت میں مقدمہ کر کے پیغام دیا کہ جو بھی ان کی کرپشن کو ہائی لائٹ کریں گے تو ان کا کیا حشر ہوگا اور انہیں سزائے موت ہو سکتی تھی۔ اس انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج بھی اس جرنل کی کرپشن کے خٌلاف خبر چپھنے پر آنسو بہائے نہ رہ سکے اور سمن جاری کر دیے کہ صحافیوں پر دہشت گردی کے مقدمات چلائے جائیں۔ اس کے علاوہ جنرل صاحب نے اپنی دہشت ہمارے اوپر بٹھانے کے لیے یہ قومی راز بھی فاش کیا کہ کیسے ائی ایس ائی بوسینا میں اسحلہ فراہم کرتی رہی تھی۔ اس راز کو جو پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوا سکتا تھا اس لیے لیک کردیا تاکہ میر شکیل اور سیلم بخاری کو دہشت گردی کی عدالت سے سزا دلوا دلوائی جا سکے اور معاملہ معاملہ اقوام متحدہ تک پہنچا اور پاکستان ایک دہشت گرد ریاست قرار دیے جانے سے بال بال بچا۔ اس وقت نواز شریف کو بھی جوش نہ آیا کہ کسی عدالت میں جا کر میمو سکینڈل کی طرح ایک کمشن بنواتے کہ اتنے قومی راز کو کیسے فاش کیا گیا تھا جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ اورنہ ہی کسی جج کو قومی مفادات کی سمجھ آئی جیسے آج کل میمو سکینڈل پر آئی ہوئی ہے اور اس میمو کی وجہ سے جمہوریت اور سیاست پاکستان میں دفن ہونے والی ہے۔
اس لیے ایڈٹر ندیم صاحب شکر کریں کہ آپ پر دہشت گردی کا مقدمہ درج نہیں ہوا اور اس الزام پر آپ کو جان بچا کر ملک سے نہیں بھاگنا پڑا ۔
آپ کی اس ساری کہانی کا اخلاقی سبق یہ بنتا ہے کہ آپ بہت ناشکرے واقع ہوئے ہیں، خیر سے !
آپ کے اس کالم کے بعد میری پسندیدہ گلوکارہ آنجہانی ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں گایا پنجابی ملی نغمہ ’’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے توں لبھدی پھریں بازار کڑے‘‘ غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اور یقینا ملکہ ترنم کی روح بھی اس رپورٹ کے بعد تڑپ اٹھی ہوگی۔ کہ میں نے کس فوج کا مورال بلند کرنے کیلئے یہ قصیدہ گا دیا تھا۔
کیونکہ فوج تو ہٹیوں پر بین لگا دیتی ہے۔ اور کوئی ایماندار سارجنٹ اگر ان کی بازار میں کی ہوئی غلطی لبھ کر چلان کر دے تو اس کے خونے سینک دیتی ہے۔۔۔!!
مجھے یقین ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبا ز شریف صاحب آپ کا یہ کالم پڑھنے کے بعد اب محمد رفیق کو انعام و اکرام سے نوازنے کا اعلان فی الفورکریں گے۔
کیونکہ جب محمد رفیق پر فوجیوں نے یہ ظلم ڈھایا تھا شہباز شریف اس وقت جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے اور کلپ رہے تھے کہ محمد رفیق کو پر دیس میں رہ کر کس طرح انعام دوں۔
فوج نے اپنی بی ٹیم کو لاہور میں متحرک کر دیا ہے۔یعنی جماعت اسلامی،جماعت الدعوۃ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل بطور ہمنوا ان کے پیش پیش ہیں۔
٩٥% آرمی جرنیل پنجاب سے ہوتے ہیں …
جس ملک میں آزاد عدلیہ صوبائی تعصب کرے وہاں آرمی جیسے متعصب ادارے کی آپ کیا صفائی دے رہے ہیں …
آرمی کی فوجی اور انڈسٹریل تنصیبات ہی دیکھ لیں کس صوبے میں ہیں اور کس صوبے کو اسکا فائدہ ہو رہا ہے .. سندھ میں خاص طور پی شہری سندھ میں کتنے کیڈٹ کالجز ہیں ….
پچھلے ١٠ سالوں میں کتنی آرمی تنصیبات سندھ سے پاکستان یعنی پنجاب منتقل ہوئیں ہیں اور کتنی صرف اور صرف پنجاب میں ہی بنی ہیں ….
اپ لوگوں کی بھی عجیب منطق ہوتی ہے .. جب مشرقی پاکستان ساتھ تھا تو آبادی کی بنیاد پہ وسائل کی تقسیم ملک کے خلاف سازش تھی …
اور اب اس سے بڑی کوئی حب الوطنی ہی نہیں ہے .. جناب لاٹھی پنجاب کے ہاتھ میں ہے تو جو آپ بولو گے ووہی سچ ہو گا ..کیوں کے 71 میں آپ نے سچ کا معیار بدلا .. تو ابھی بھی سچ پنجاب ہی کی مرضی کا ہو گا
Ap ne NFC award ki baat hay,, laiken ap ku tareekhi haqaiq ka shayad nhi pata,,bhai, jub 1955 mein NWFP k Ayb khan ka concieved one-unit bna tha, tu us wakt Punjab west Pakistan ki population ka 60% tha, ls hisab se Punjab ka West Pakistan ki Government jobs mein share 60% bnta tha, laiken Punjab ne apnay 20% jobs k share small provinces ku de diye aur 40% haqooq per guzara kia, aj bi Punjab Pakistan ki population ka 60% hay, laiken federal jobs mein last 38 years se is ne 50% share qabool kia hua hay, aur apnay hissay ka10% jobs ka share apnay chhotay bhaion Sindh, KPK, aur Balochistan ku diye hain. Ye baat bacha bacha janta hay k aj ager quota system khatam kar dia jai tu 90% civil servents sirf Punjab se hi select hoon,,Punjab total Puray Pakistan ki 70% wheat produce karta hay, sub se ziada agricultural land bi Punjab ki hay, aur baqi provinces se kahin ziada hay, phir bi Punjab ku Pakistan k total canal water mein se sirf 37% dia jata hay jub k baqi ka 63% baqi provinces le jatay hain. Sub se ziada Revenue generate ( not Revenue collect) bi punjab karta hay, phir ap NFC ki baat kartay hain ,bhai, Punjab ki 60% population 51.5% share le rahi hay aur 2009 walay NFC mein Punjab ne apna 5% share chhottay provinces ku dia, jub k baqi 3 provinces apni population k lehaz se ziada share le rahay hain, phir bi aitraz pinjab per? , ap btain Punjab k kis leader ne 1947-71 tak NFC award per population k formulay per ihtijaj kia,,bhai Punjab ka tu aik bi banda 1947-71 tak Pakistan ka ruler nhi bna,,aur ub bi Punjab ne khushi se apna pait kaat kar apnay chhotay bhaion ka facilitate kia .Aj Punjab mein dosray provinces k 119 bureaucrats mukhtalif top posts per oppointed hain, kia kici aur province mein Punjabi officer barri tadad mein top posts per oppointed hain.Aj bi Punjab mein gas aur bijli ki jitni shadeed aur ziada loadshedding ki ja rahi hay , kici aur province mein nhi, Punjab ki agriculture aur Industry ku tabah kar dia hay iss load shedding ne.aj power genearation companies ka circular debt 312 billion hay, jis mein se Punjab k zimmay sirf 6 billion hay jub k 306 billion baqi provinces k zimmay… laiken bhai, Punjab ne kici per ehsan nhi kia, KPK, Sind, Balochistan chhotay bhai hain, ye aur chhotay bhaion ki help koi ehsan nhi hoota, laiken chhotay bhaion ka faraz hay k barray bhai ku is tarah zaleel na karein. Main ap ku iss tarah ki hazaron examples de skta hoon…. bhai, ghurbat, Punjab mein bi hay, KPK mein bi, Sindh mein bi, aur Balochistan mein bi, yaqeen karein Punjab mein bi itni ghurbat hay k ap imagine nhi karsaktay, laiken sub ki gurbat ya backwardness ka responsible Punjab tu nhi, ap ki backwardness ya poverty k responsible ap k leaders hain,, jinhon ne jhoota propaganda kar k ap jaisay bhaion k dil mein Punjab k khilaf zeher bhara hay, ap ka sara share, ap k saray wasail ap k ye leaders kha rahay hain ju 60 saal se ap per rule kar rahay hain, in logon ne kia tu kuch nhi ap k liye, laiken apni siasat chamkanay k liye aur vote lainay k liye ap ku gumrah zror kar rahay hain, jutaay marnay hain tu un k sar per marye…hum sub Pakistani hain, aur aik dosray ki madud karna hamar farz hay, hamar sub se bara almya ye raha hay k Hazrat Quaid-i-azam k baad koi aik leader bi aisa paida nhi hua ju Pakistan k awam ku zlum, ghurbat, na-insafi, se nijat dila skta hu.. Umeed rakhein k Inshallah Zulm ka ye nizam jis mein charon provinces k ghareeb log pis rahay hain ,jald apnay anjam ku pohanchay ga….meri kici baat se ap ki dil azari hoi hu, tu I will be sorry for that…
ٹی وی کے ٹاک شو دیکھ لیں،کیا کوئی کھل کر فوجی جرنیلوں پر بات کرتا ہے؟ انہوں نے فوجی سپاہیوں کوڈسپلن کے نام پر اور عوام کو مورال کے نام پر الو بنایا ہوا ہے۔
پتہ نہیں کب ان سے ہماری جان چھوٹے گی؟
and Blaming US drone . All contractors are the relatives of army generals in FATA.
they killed many tribels leaders for their game … but Remember the people of FATA not forgetting
any things .the right time is coming .this army gerels destroying pakistan for their own interests
and their main supporter is middle class Punjabis
اس لیے میں کهےں گا که اپ کی یه تحریر پاک فوج کے مورال کے لیے ایک خطره هے