میمو، لاتیں، گھونسے اور فوج کا مورال: تحریر ندیم سعید


میمو، لاتیں، گھونسے اور فوج کا مورال: تحریر ندیم سعید

Published on 17. Dec, 2011
میمو، لاتیں، گھونسے اور فوج کا مورال: تحریر ندیم سعید
پاکستانی نژاد امریکی منصور اعجاز میمو کی ڈگڈی بجا رہے ہیں اور پوری دنیا بندر کا تماشا دیکھ رہی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس میں بندر کون ہے۔ پاکستانی قوم جس کا ہمارے دائیں بازو کے پنجابی دانشور ، لکھاری اور صحافی ڈھول بجاتے رہتے ہیں بہت نازک مزاج ہے اور اس سے کہیں زیادہ نازک پنجاب سے ہی تعلق رکھنے والی پاکستانی فوج کا مورال ہے جو بات بات پر گر جاتا ہے۔انہیں پاکستانیوں جو بوجہ تفریح طبع کثرت آبادی کی بنیاد پر سندھیوں ، بلوچوں، پشتونوں اور سرائیکیوں کو اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھتے ہیں کااپنا کنٹرول دوسروں کے ہاتھوں میں رہتا ہے، اور بعض اوقات مضحکہ خیز طور پر۔ دنیا کے کسی دوردراز کونے میں چھپنے والی کسی متنازعہ کتاب یا کارٹون سے کاروبار زندگی معطل کر بیٹھتے ہیں اور اپنی ہی املاک کا جلاؤ گھیراؤ کر کے بہادری کی دھاک بیٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے بہادروں کی سپاہ اور اس کے سورماؤں کا مورال تو کانچ سے بھی زیادہ نازک واقع ہوا ہے اور اس کا خمیازہ سب بھگتے آ رہے ہیں لیکن اس نزاکت میں کمی واقع ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ مملکت خداداد پاکستان کے سپہ سالار نے ’میموگیٹ‘ کیس میں سپریم کورٹ کو جو جواب داخل کرایا ہے اس کا اختتام اس بات ہر ہوتا ہے کہ ’میمو کے ذریعے فوج کا مورال گرانے کی سازش کی گئی ہے‘۔
مجھے اپنی صحافیانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فوج کے کمزور مورال کا بارہا اندازہ ہوا، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کروایا گیا تو زیادہ بہتر ہوگا۔
shahzad-fabricsمئی دوہزار تین میں جب میں اخبار ’ڈان‘ کے لیے کام کر رہا تھا تو ملتان کینٹ بازار میں کپڑوں کی ایک دکان ’شہزاد فیبرکس‘کے باہر ایک بورڈ ’Out of bound for all ranks‘ اور ملٹری پولیس کے دو باوردی اہلکاروں کو دکان کے باہر ڈیوٹی پر دیکھا تو تجسس ہوا کہ ماجرا کیا ہے۔معلوم یہ ہوا کہ کچھ روز قبل اسی دکان کے باہر ٹریفک پولیس کے ایک کانسٹیبل نے دو موٹر سائیکل سوار نوجوانوں کا ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر چالان کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی پٹائی کردی۔ دونوں نوجوان فوجی کیڈٹس تھے۔
پولیس حکام نے ملتان کور کے حکام سے رابطہ کرکے واقعہ کی شکایت کی تو ادھر سے جواب ملا کہ’ہمارے جوانوں کا کہنا ہے کہ غلطی پولیس والے کی ہے‘۔ خیر تنازعے کو نبٹانے کے لیے تین رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی جس میں دو فوجی اور ایک پولیس افسر شامل تھے۔ کہا گیا کہ واقعہ کے بارے میں اگر کوئی گواہی دینا چاہے تو اس ٹیم یا ٹریبونل کو بیان ریکارڈ کراسکتا ہے۔ دو دن گزر گئے لیکن کوئی نہ آیا، بھلا اس لڑائی میں کون نشانہ بننا پسند کرتا۔ لیکن شہزاد فیبرکس کے مالک کینڈا پلٹ تھے اور گواہی دینا اپنا قانونی فرض سمجھا۔ انہوں نے جو دیکھا بیان کردیا جس کے تحت قصوروار فوجی کیڈٹس ٹھہرتے تھے۔
اب یہ پتہ نہیں چلا کے ان کیڈٹس کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں لیکن ملتان کور نے شہزاد فیبرکس کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ملٹری پولیس کی ڈیوٹی لگا دی کہ بورڈ پر لکھی وارننگ پر عملدرآمد بھی کرائیں۔میں نے تصویر سمیت سارے واقعہ کی خبر بنا دی، جو اگلے روز ڈان میں چھ کالمی سرخی ’Martial Law Imposed on a Cantonment Shop‘ کے ساتھ شائع ہوئی۔ ملتان میں ڈان دن کے دس یا گیارہ بجے پہنچتا تھا لیکن مجھے کوئی صبح سات بجے آئی ایس پی آر سے فون آنا شروع ہوگئے کہ آپ نے یہ کیا کردیا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ کور حکام سخت غصے میں ہیں۔یہ وہ وقت تھا جب جنرل مشرف مغرب کے سامنے خود کو جمہوریت پسند بن کر دکھانا چاہ رہے تھے۔
ملتان میں آئی ایس پی آر کے اس وقت کے انچارج نے فوج میں شمولیت سے پہلے کچھ عرصہ ڈان میں کام کیا ہوا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس اخبار کو دبانا آسان نہیں، اس لیے وہ بے چارے ایک طرف اپنے افسروں کو ٹھنڈا کرنے کو کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف مجھے سمجھانے کی کہ میں کور آکر اپنے کیے کی وضاحت کردوں۔ اس دوران ملتان میں ڈان کے آفس کے باہر چھ سات جوانوں کو بٹھائے ایک فوجی ویگن نے ڈیوٹی دینا شروع کردی۔
tortured by pakistan army
موٹر وے پولیس کے انسپکٹر محمد رفیق نے تیز رفتاری پر ایک فوجی گاڑی کا چالان کیا تھا
ابھی یہ سب کچھ جاری تھا کہ پتہ چلا کے ملتان بہاولپورہائی وے پر فوجی جوانوں نے ہائی وے پولیس کے ایک سب انسپکٹر کو اس وقت بری طرح پیٹ دیا جب اس نے مقررہ رفتار سے تیز گاڑی چلانے پر ایک فوجی گاڑی کا چالان کردیا۔سب انسپکٹر نشتر ہسپتال کی ایمرجنسی میں داخل تھا۔ میں اپنے فوٹو گرافر ساتھی شاہد بشیر کے ساتھ وہاں گیا تو دیکھا کہ فوجی مکوں سے اس کی ایک آنکھ سوج کر نیلی تھی جبکہ اس کے سارے جسم پر بھی نیل تھے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کی متاثرہ آنکھ کی بینائی ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ میں نے وہاں کھڑے ہوئے سوچا کہ یہ اصول پسند سب انسپکٹر اپنے بیوی بچوں کو کیا بتائے گا کہ انہیں کی فوج نے اس کا یہ حشر کیا ہے۔
میں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ میں اس زیادتی کو رپورٹ نہ کروں کہ فوج پہلے ہی میرے دفتر کے باہر کھڑی رہتی ہے۔ اس دفعہ میں نے ڈان کے ساتھ ساتھ بی بی سی کو بھی اس واقعہ کی خبر دی۔ اب میرا قصور ناقابل معافی ہوچکا تھا، دباؤ بڑھتا جا رہا تھا اور میری حب الوطنی پر سوال اٹھائے جا رہے تھے جیسے شہزاد فیبرکس اور سب انسپکٹر والے واقعات رپورٹ کر کے میں نے کوئی غداری کر لی ہے۔ آئی ایس پی آر کے انچارج نے لیکن ’سفارت کاری‘ جاری رکھی جو میرے اور ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار کے درمیان ملاقات کے نتیجے میں سامنے آئی۔ مجھے ملنے میں کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن میں رضاکارانہ طور پر ’مسنگ پرسن‘ نہیں بننا چاہتا تھا۔
ملاقات خیر خوشگوار ماحول میں ہوئی لیکن میری حیرانی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب مجھے بتایا گیاکہ میرے حالیہ اقدامات سے جوانوں کا مورال گرنے کا خدشہ ہے’اور ایسی صورتحال میں دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے‘۔
یعنی جوانوں کا مورال ہائی رکھنے کے لیے Bloody Civilians لاتیں، گھونسے اور معاشی بائیکاٹ سہتے رہیں۔
فوج کا مورال گرانے کا ایک اور الزام مجھ پر اس وقت لگا جب میں نے مشرف دور میں میپکو (ملتان الیکٹرک پاور کمپنی) کے ایک سربراہ جو اس وقت حاضر سروس بریگیڈئر تھے کی بدعنوانی کے بارے میں خبر دی۔ میپکو کی ایک ٹیم نے اس انٹیلیجنس رپورٹ پر ملتان کے بہاولپور روڈ پر واقع ایک بنگلے پر چھاپہ مارا کہ وہاں بجلی چوری کی جا رہی ہے۔ چھاپہ مار ٹیم نے اطلاع کو درست پایا اور اس بنگلے کی پاور سپلائی منقطع کردی۔ یہ کوئی خبر نہیں تھی۔
لیکن خبر اس وقت بنی جب پتہ چلا کہ اس بنگلے کی بجلی فوری طور پر بحال کردی گئی ہے جبکہ چھاپہ مار ٹیم کے تمام اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔ وہ بنگلہ جس کی بجلی منقطع کی گئی تھی وہاں میپکو کے سربراہ جناب بریگیڈئر صاحب خفیہ طور پر اپنی شامیں گزارتے تھے جس کا چھاپہ مارنے والے اہلکاروں کو قطعاً علم نہ تھا۔ ڈان میں یہ خبر چھپی تو پہلے تو اس کی تردید کے لیے ادھر ادھر سے دباؤ ڈلوایا گیا۔ لیکن جب کام نہ بنا تو ایک پریس ریلیز جاری کیا گیا کہ میں اپنے ایک ایس ڈی او دوست کی ترقی کروانا چاہتا تھا جو بریگیڈئر صاحب نے کرنے سے انکار کردیا اور اب میں اس کا انتقام لے رہا ہوں۔ میں نے پریس ریلیز اپنے ایڈیٹر کو بھیج دیا جنہوں نے اسے چھاپنا مناسب نہ سمجھا، البتہ مجھے کہا کہ اگر کوئی فالو اپ ہو تو فائل کرتے ہوئے ڈرنا نہیں۔ چنانچہ اس واقعہ کے کئی فالواپ بھی ڈان میں شائع ہوئے۔
بریگیڈئر صاحب جو میجر جنرل بننے کی دوڑ میں تھے نے مجھے اور ڈان کو فریق بناتے ہوئے ملتان کی ایک عدالت میں دو اڑھائی کروڑ کا دعویٰ کر دیا۔ میں نے اپنی رپورٹس کے حق میں سارے ڈاکومنٹس ڈان کے لیگل ایڈوائزر کو بھیج دیئے ، جو لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق جج تھے۔ ڈاکومنٹس دیکھنے کے بعد انہوں نے کیس لڑنے کا فیصلہ کیا ، لیکن بریگیڈئر صاحب کے وکیل ایک دو پیشیوں کے بعد آنا چھوڑ گئے۔ بریگیڈئر صاحب کے دعوے کا بھی سارا زور اسی پر تھا کہ خبروں کے ذریعے فوج کے وقار کو مجروع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے فوج کا مورال متاثر ہوتا ہے اور دشمن کو فائدہ۔
فوج کا مورال گرنے سے یقیناًدشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن یہ مورال نہ تو جنرل مانک کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے گرتا ہے نہ سیاچن گنوانے پر اور نہ ہی کارگل پر مات کھانے سے۔ اس کا مورال ہائی رکھنے کے لیے ملتان کا سب انسپکٹر لاتے گھونسے کھا کر بھی مقدمہ درج کرانے کی جرات نہیں کرتا، شہزاد اپنی کپڑے کی دکان بند کر کے کینڈاواپس جانے کا سوچتا ہے ، حقانی مستعفی ہوتا ہے اور زرداری بیمار ہوکر دبئی پہنچتا ہے۔

  1. فیصل 17 December 2011 at 6:46 pm #
    شکر کریں کہ ریاست کے تین ستونوں یعنی فوج، فیوڈل اور بیوروکریسی میں سے کم از کم ایک سے پنگا لے کر بھی ابھی تک ادھر ہی ہیں، اُدھر نہیں ہو گئے۔
  2. نذیر شاہ 17 December 2011 at 6:48 pm #
    اور اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ندیم سعید لندن جا بیٹھتا ھے —-کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔بقول مورال ۔۔۔ یہ وطن ہمارا ھے ۔۔۔۔ تم ھو خامخواہ اس میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  3. توبہ ہے بھئ توبہ ہے ندیم سعید تم آئرن مین ہو لیکن سوچنے کی با ت یہ ہے کہ تم کو چھو ٹی مو ٹ ایسی خبریں لگا کر کیا ملتا ہے کرنے دو جو طاقتور کرتے یں
  4. فار و ق 17 December 2011 at 8:44 pm #
    ند یم کیا میں بھی آ پ کو مر شد لکھ سکتا ہو ں
  5. سلیم منڈ ھیرا 17 December 2011 at 8:47 pm #
    ھم زندہ رہنا چا ہتے ہین مسنگ پر سن کی لسٹ مین نا م لکھا نے کی خوا ہش بھی نہین – نا بھٹو نا زرداری نا ندیم سعید – انگلینڈ کا ویزا بھی نھین ھے-آئندہ ایسے کالم بھی نہین پڑھنے- ویل ڈن ندیم سعید
  6. شزرے۔ 17 December 2011 at 9:55 pm #
    اور کریں پاک فوج کو سلام
  7. روف کلاسرا 17 December 2011 at 10:04 pm #
    خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ ایک مورال ڈائوں ہونے کا واقعہ مجھے بھی یاد آرہا ہے۔ شاید دو ہزار دو کی بات ہے جنرل مشرف اس وقت اپنی فوجی طاقت اور رعونت کے منبر پر سوار تھے۔ عدالت سرنگوں ہو چکی تھی۔ نواز شریف ملک سے فرار ہو چکے تھے اور بے نظیر ملک واپس انے کے لیے تیار نہیں تھی کیونکہ انہیں نواز شریف کے دور میں ملک سے فرار ہو نا پڑ گیا تھا۔ انہی دنوں میں دی نیوز لاہور کے سینر جرنلسٹ میک لودھی نے ایک سابق ڈی جئی ائی ایس ائی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سویلین ادارے کے سربراہ کے طور پر کی جانے والی لمبی چوڑی کرپشن پر ایک سٹوری فائل کی ۔ رپورٹر سے ایک غطلطی ہو گئی کہ اس نے لکھ دیا کی جنرل صاحب ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے جب کہ وہ ملک میں موجود تھے۔ رپورٹر بھول گئے تھے کہ کرپشن الزامات پر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف فرار ہوتے ہیں، فوجی جرنل نہیں۔ جب یہ رپورٹ چھپی تو جنرل صاحب نے لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جا کر مقدمہ کر دیا اور کہا کہ ان کے خلاف چھپنے والی خبر دراصل دہشت گردی تھی اور عدالت نے اس جواز کو تسلیم کیا۔ یوں میر شکیل الرحمن صاحب ، میرے پسندیدہ ایڈیٹروں میں سے ایک سیلم بخاری، میک لودحی کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں سمن جاری کر دیے گئے۔ اس جنرل نے پیٹیشن میں لکھا تھا کہ ان پر کرپشن کی سٹوری فائل کر کے فوج کا مورال ڈائون کرنے کی سازش تھی اور اسے دہشت گردی سمجھ کر میر شکیل اور دیگر کو دہشت گرد قراری دیا جائے۔ موصوف نے اپنے اپ کو محب الوطن ثابت کرنے کے لیے اس پیٹیشن میں یہ بھی لکھا تھا کہ جب بوسینا میں جاری جنگ کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے وہاں کسی بھی پارٹی کو اسحلہ فراہم کرنے پر پابندی لگائی تھی تو انہوں نے اس عالمی بین کو تسلیم ماننے سے انکار کر دیا تھا اور خفیہ طور پر بوسینا کے مسلمانوں کو اسحلہ فراہم کیا تھا۔ اس پیٹیشن کی خبر اقوام متحدہ تک پہنچی اور وہاں ایک اور کیس پاکستان پر بن گیا کہ بھلا کیوں کر پاکستانی ایجنسیی نے اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی تھی اور پاکستان کے خلاف کیا ایکشن لینا چاہیے۔
    یوں کرپشن کا سامنا کرنے والے اس جنرل نے میر شیکل الرحمن، ایڈیڑ سلیم بخاری اور میک لودھی پر دہشت گردی عدالت میں مقدمہ کر کے پیغام دیا کہ جو بھی ان کی کرپشن کو ہائی لائٹ کریں گے تو ان کا کیا حشر ہوگا اور انہیں سزائے موت ہو سکتی تھی۔ اس انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج بھی اس جرنل کی کرپشن کے خٌلاف خبر چپھنے پر آنسو بہائے نہ رہ سکے اور سمن جاری کر دیے کہ صحافیوں پر دہشت گردی کے مقدمات چلائے جائیں۔ اس کے علاوہ جنرل صاحب نے اپنی دہشت ہمارے اوپر بٹھانے کے لیے یہ قومی راز بھی فاش کیا کہ کیسے ائی ایس ائی بوسینا میں اسحلہ فراہم کرتی رہی تھی۔ اس راز کو جو پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوا سکتا تھا اس لیے لیک کردیا تاکہ میر شکیل اور سیلم بخاری کو دہشت گردی کی عدالت سے سزا دلوا دلوائی جا سکے اور معاملہ معاملہ اقوام متحدہ تک پہنچا اور پاکستان ایک دہشت گرد ریاست قرار دیے جانے سے بال بال بچا۔ اس وقت نواز شریف کو بھی جوش نہ آیا کہ کسی عدالت میں جا کر میمو سکینڈل کی طرح ایک کمشن بنواتے کہ اتنے قومی راز کو کیسے فاش کیا گیا تھا جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ اورنہ ہی کسی جج کو قومی مفادات کی سمجھ آئی جیسے آج کل میمو سکینڈل پر آئی ہوئی ہے اور اس میمو کی وجہ سے جمہوریت اور سیاست پاکستان میں دفن ہونے والی ہے۔
    اس لیے ایڈٹر ندیم صاحب شکر کریں کہ آپ پر دہشت گردی کا مقدمہ درج نہیں ہوا اور اس الزام پر آپ کو جان بچا کر ملک سے نہیں بھاگنا پڑا ۔
    آپ کی اس ساری کہانی کا اخلاقی سبق یہ بنتا ہے کہ آپ بہت ناشکرے واقع ہوئے ہیں، خیر سے !
    • ندیم سعید 18 December 2011 at 9:01 pm #
      روف آپ تو جانتے ہی ہیں کہ زورآوروں کی زورآوری کے بارے رپورٹنگ یا تحقیقاتی صحافت کی پہلی ڈیفنس لائن حقائق کا دودھ میں نہایا ہوا ہونا چاہیے یا یوں کہہ لیں زیر زبر کا بھی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ آپ نے خود بتایا ہے کہ میک لودھی صاحب نے مذکورہ جنرل کو ’ملک بدر‘ کردیا تھا جبکہ وہ سورما تو پاکستان میں دندناتے پھر رہے تھے۔اس تحریر کا مقصد یہ ہائی لائٹ کرنا تھا کہ میمو ، دفاعی سودوں میں گھپلوں، زرعی زمینوں کی بے دریغ الاٹمنٹ پر اس ملک کے ان لکھے آئین کی مورال شق تو حرکت میںآتی ہی لیکن دکاندار اور پولیس اہلکار کی ’گستاخی‘ پر صحافیوں کو خاموش رکھنے کے لیے بھی اسی شق کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک بات جو میں لکھنا بھول گیا وہ یہ تھی کہ ملاقات میں مذکورہ اعلیٰ فوجی افسر نے بات شروع ہی اس طرح کی تھی کہ ’آپ کی ان خبروں سے انڈیا پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے‘۔ میں نے کہا ’سوری، میں کچھ سمجھا نہیں‘۔ تو انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے مورال شق کا حوالہ دیا۔
  8. عمران زاہد 17 December 2011 at 10:08 pm #
    فوج کو یقیناٌ اصلاح کی ضرورت ہے۔ بہت ہو چکی ہے۔ موجودہ حکومت جو مشرف کے خلاف کیس چلانے کو ہی اَن ڈوایبل سمجھتی ہے تو فوج میں قانون کی بالادستی کا احساس کہاں سے آئے گا۔
  9. ایس اے رانا 17 December 2011 at 10:21 pm #
    ویل ڈن ندیم سعیید صاحب ! آپ بے خوف لکھتے رہئیے۔ پاکستان میں ا نشاء اللہ اب تبدیلی آ کر رہے گی۔ اور اس مورال پارٹی کو بھی اپنے رویئے درست کرنا پڑیں گے۔ یہ آپ جیسے نڈر صحافی ہی ہیں جو پوری قوم کو ایسے مظالم سے آگاہ رکھتے ہیں۔ اب ہم مذید ظلم برداشت کرنے کیلیئے تیار نہیں۔
  10. نغمہ سحر 17 December 2011 at 11:29 pm #
    جیسے ساری دنیا ناقابل اعتبار مانتی ہے ہمارے ڈی جی آئی ایس آئی ایک ملاقات میں اس کی سچائی پر ایمان لے آئے کیا راز ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟نہ منصور اعجاز کا ماضی دیکھا نہ کردار ؟؟؟؟؟؟؟؟
  11. نومی 18 December 2011 at 12:06 am #
    ندیم سعید
    آپ کے اس کالم کے بعد میری پسندیدہ گلوکارہ آنجہانی ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں گایا پنجابی ملی نغمہ ’’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے توں لبھدی پھریں بازار کڑے‘‘ غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اور یقینا ملکہ ترنم کی روح بھی اس رپورٹ کے بعد تڑپ اٹھی ہوگی۔ کہ میں نے کس فوج کا مورال بلند کرنے کیلئے یہ قصیدہ گا دیا تھا۔
    کیونکہ فوج تو ہٹیوں پر بین لگا دیتی ہے۔ اور کوئی ایماندار سارجنٹ اگر ان کی بازار میں کی ہوئی غلطی لبھ کر چلان کر دے تو اس کے خونے سینک دیتی ہے۔۔۔!!
    مجھے یقین ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبا ز شریف صاحب آپ کا یہ کالم پڑھنے کے بعد اب محمد رفیق کو انعام و اکرام سے نوازنے کا اعلان فی الفورکریں گے۔
    کیونکہ جب محمد رفیق پر فوجیوں نے یہ ظلم ڈھایا تھا شہباز شریف اس وقت جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے اور کلپ رہے تھے کہ محمد رفیق کو پر دیس میں رہ کر کس طرح انعام دوں۔
  12. احمد۔لاہور 18 December 2011 at 4:22 am #
    میمو گیٹ پر اپنی کارکردگی اور ندامت کافور کرنے کے لئے
    فوج نے اپنی بی ٹیم کو لاہور میں متحرک کر دیا ہے۔یعنی جماعت اسلامی،جماعت الدعوۃ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل بطور ہمنوا ان کے پیش پیش ہیں۔
  13. راجہ قنبر 18 December 2011 at 10:42 am #
    الفاط ختم
  14. حماد احمد میاں 18 December 2011 at 10:59 am #
    بہت اعلٰی ندیم سعید صاحب
  15. علئ 18 December 2011 at 12:06 pm #
    Execellent column..u have done a great job.but sir, I have objection on yr introductory remarks. U have manifested or at least I come to know from yr remarks that rest of Punjab except Sraiki belt is the supporter of military hegemony nd that Punjab is silent promoter of military atrocities..Sir, I will give just one example…3 out of 4 military rulers of Pakistan belonged to sl Sindh and NWFP. nd as far as General Zia is concerned, he lived in Indian Punjab before partition but after partition he settled on Peshawer…so,no military ruler belonged to northern and central Punjab, then why this part of Punjab is blamed…
    • نومی 18 December 2011 at 1:08 pm #
      میں آپ سے مکمل اتفاق کر تا ہوں علی بھائی۔
  16. نعمان 18 December 2011 at 6:36 pm #
    علی اور نومی بھائی …. جناب ضروری نہیں ہے .. کہ جو army chief کو ہی آپ گنیں ….
    ٩٥% آرمی جرنیل پنجاب سے ہوتے ہیں …
    جس ملک میں آزاد عدلیہ صوبائی تعصب کرے وہاں آرمی جیسے متعصب ادارے کی آپ کیا صفائی دے رہے ہیں …
    آرمی کی فوجی اور انڈسٹریل تنصیبات ہی دیکھ لیں کس صوبے میں ہیں اور کس صوبے کو اسکا فائدہ ہو رہا ہے .. سندھ میں خاص طور پی شہری سندھ میں کتنے کیڈٹ کالجز ہیں ….
    پچھلے ١٠ سالوں میں کتنی آرمی تنصیبات سندھ سے پاکستان یعنی پنجاب منتقل ہوئیں ہیں اور کتنی صرف اور صرف پنجاب میں ہی بنی ہیں ….
    اپ لوگوں کی بھی عجیب منطق ہوتی ہے .. جب مشرقی پاکستان ساتھ تھا تو آبادی کی بنیاد پہ وسائل کی تقسیم ملک کے خلاف سازش تھی …
    اور اب اس سے بڑی کوئی حب الوطنی ہی نہیں ہے .. جناب لاٹھی پنجاب کے ہاتھ میں ہے تو جو آپ بولو گے ووہی سچ ہو گا ..کیوں کے 71 میں آپ نے سچ کا معیار بدلا .. تو ابھی بھی سچ پنجاب ہی کی مرضی کا ہو گا
    • علئ 19 December 2011 at 10:46 pm #
      Noman bhhai,,mera baat karnay ka maqsad ye tha k Pakistan k baqi logon ki tarah Central aur Northren punjab bi democracy se mohabat karta hay,Military atrocities se nafrat karta hay,aur yahan k log bi decentralization,provincial autonomu aur new provinces bnany k hami hai.. laiken ap baat ku dosri taraf le gai.ap ne khasi sakhat language use ki….
      Ap ne NFC award ki baat hay,, laiken ap ku tareekhi haqaiq ka shayad nhi pata,,bhai, jub 1955 mein NWFP k Ayb khan ka concieved one-unit bna tha, tu us wakt Punjab west Pakistan ki population ka 60% tha, ls hisab se Punjab ka West Pakistan ki Government jobs mein share 60% bnta tha, laiken Punjab ne apnay 20% jobs k share small provinces ku de diye aur 40% haqooq per guzara kia, aj bi Punjab Pakistan ki population ka 60% hay, laiken federal jobs mein last 38 years se is ne 50% share qabool kia hua hay, aur apnay hissay ka10% jobs ka share apnay chhotay bhaion Sindh, KPK, aur Balochistan ku diye hain. Ye baat bacha bacha janta hay k aj ager quota system khatam kar dia jai tu 90% civil servents sirf Punjab se hi select hoon,,Punjab total Puray Pakistan ki 70% wheat produce karta hay, sub se ziada agricultural land bi Punjab ki hay, aur baqi provinces se kahin ziada hay, phir bi Punjab ku Pakistan k total canal water mein se sirf 37% dia jata hay jub k baqi ka 63% baqi provinces le jatay hain. Sub se ziada Revenue generate ( not Revenue collect) bi punjab karta hay, phir ap NFC ki baat kartay hain ,bhai, Punjab ki 60% population 51.5% share le rahi hay aur 2009 walay NFC mein Punjab ne apna 5% share chhottay provinces ku dia, jub k baqi 3 provinces apni population k lehaz se ziada share le rahay hain, phir bi aitraz pinjab per? , ap btain Punjab k kis leader ne 1947-71 tak NFC award per population k formulay per ihtijaj kia,,bhai Punjab ka tu aik bi banda 1947-71 tak Pakistan ka ruler nhi bna,,aur ub bi Punjab ne khushi se apna pait kaat kar apnay chhotay bhaion ka facilitate kia .Aj Punjab mein dosray provinces k 119 bureaucrats mukhtalif top posts per oppointed hain, kia kici aur province mein Punjabi officer barri tadad mein top posts per oppointed hain.Aj bi Punjab mein gas aur bijli ki jitni shadeed aur ziada loadshedding ki ja rahi hay , kici aur province mein nhi, Punjab ki agriculture aur Industry ku tabah kar dia hay iss load shedding ne.aj power genearation companies ka circular debt 312 billion hay, jis mein se Punjab k zimmay sirf 6 billion hay jub k 306 billion baqi provinces k zimmay… laiken bhai, Punjab ne kici per ehsan nhi kia, KPK, Sind, Balochistan chhotay bhai hain, ye aur chhotay bhaion ki help koi ehsan nhi hoota, laiken chhotay bhaion ka faraz hay k barray bhai ku is tarah zaleel na karein. Main ap ku iss tarah ki hazaron examples de skta hoon…. bhai, ghurbat, Punjab mein bi hay, KPK mein bi, Sindh mein bi, aur Balochistan mein bi, yaqeen karein Punjab mein bi itni ghurbat hay k ap imagine nhi karsaktay, laiken sub ki gurbat ya backwardness ka responsible Punjab tu nhi, ap ki backwardness ya poverty k responsible ap k leaders hain,, jinhon ne jhoota propaganda kar k ap jaisay bhaion k dil mein Punjab k khilaf zeher bhara hay, ap ka sara share, ap k saray wasail ap k ye leaders kha rahay hain ju 60 saal se ap per rule kar rahay hain, in logon ne kia tu kuch nhi ap k liye, laiken apni siasat chamkanay k liye aur vote lainay k liye ap ku gumrah zror kar rahay hain, jutaay marnay hain tu un k sar per marye…hum sub Pakistani hain, aur aik dosray ki madud karna hamar farz hay, hamar sub se bara almya ye raha hay k Hazrat Quaid-i-azam k baad koi aik leader bi aisa paida nhi hua ju Pakistan k awam ku zlum, ghurbat, na-insafi, se nijat dila skta hu.. Umeed rakhein k Inshallah Zulm ka ye nizam jis mein charon provinces k ghareeb log pis rahay hain ,jald apnay anjam ku pohanchay ga….meri kici baat se ap ki dil azari hoi hu, tu I will be sorry for that…
  17. عامر خاکوانی 18 December 2011 at 7:46 pm #
    برادر ندیم سعید نے اچھا لکھا ہے، ایسے کئی اور واقعات بھی ہوں گے، بعض میرے علم میں بھی ہیں، اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ چند ایک ایسے افسروں کی جانب سے کئی گئی حماقتوں کے باعث پانچ لاکھ سے زیادہ کی فوج کے بارے میں ایسی منفی رائے بن جاتی ہیں، برادر رئوف نے بھی اچھا نقطہ اٹھایا، تاہم ایسے چند ایک واقعات کی بنیاد پر عمومی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ ایسی مثالیں تو ہماری اپنی کمیونٹی صحافیوں میں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں، بلکہ مجھے یقین ہے کہ صحافیوں کے اختیارات کے غلط استعمال اور بلیک میلنگ اسٹف کی بے شمار مثالیں مل جائں گی ،ہمارے علاقائی یعنی ڈسٹرکٹ اور تحصیل لیول کی صحافت کا تو حال بہت زیادہ پتلا ہے۔ تاہم اس قسم کی مثالوں سے پورے صحافتی ادارے کو مطعون نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے صحافی موجود ہیں ،جنہوں نے لاکھوں کی ترغیبات مسترد کر کے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کیا۔ ہمارے دوست رئوف کلاسرا ایسے باغیوں کے قبیلے کے سرخیل ہیں اور یہی ادا انہیں ہمارے دلوں میں مرکزی جگہ دیتی ہے، ندیم سعید بھی بہت اچھی ساکھ رکھنے والے صحافی ہیں، اور بھی بہت سے ہیں۔ صحافت کے علاوہ وکلا کمیونٹی، ڈاکٹرز کمیونٹی، انجینرز کمیونٹی یا ٹیچرز کے انسٹی ٹیوشن کو بھی مثال کے طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔ خود سیاستدانوں اور پارلیمنٹیرینز میں تو بہت بڑی تعداد اس درجہ کرپٹ اور نالائق ہے کہ نام گننواتے شائد گھنٹے لگ جائیں۔ تاہم انہی سیاستدانوں میں سے بھی وہ ہیرے نکل آتے ہیں جو فوجی آمروں کے سامنےسر اٹھا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ندیم سعید کے اس کالم کی آخری سطروں پر میرا اعتراض ہے، ملتان کا وہ انسپکٹر، شہزاد فیبرکس والا اور دیگر مثالوں کے ساتھ حسین حقانی کا نام لینا نہیں بنتا اور نہ ہی جمہوریت کے ذریعے بہترین انتقام پر یقین رکھنے والے جناب عزت ماب زرداری صاھب اس لسٹ میں فٹ آتے ہیں۔
    • آصف محمود 18 December 2011 at 8:36 pm #
      خاکوانی صاحب، آپ نے اپنے ایک اور تبصرے میں فوج کو غالباً پریمیئر ادارہ قرار دیا ہے۔ اگر یہ پریمیئر ادارہ بھی بلڈی سویلین کی طرح حرکتیں کرے گا تو اسے مقدس ماننے والے آپ جیسے کئی کرمفرماوں کو کم از کم مایوسی تو ہونی چاہیے ۔۔۔ اور سول بیوروکرسی، پولیس، صحافی، جج، گلی کا عام آدمی جب ایسی حرکتیں کرتا ہے تو ان کے دفاع میں مورال گرنے کا بہانہ نہیں کرتا۔ ایسے سویلین کو تو ہم حقارت سے دیکھتے ہیں اور وردی والوں کی باری آئے تو اپنی ہی بغلیں جھانکنا شروع کر دیتے ہیں ۔لیکن آپ کا قصور نہیں، ہم سب کے ذہنوں میں دشمن کا ڈر ہی اتنا بٹھا دیا گیا ہے کہ ہم نے چوکیدار کو گھر کا مالک بنا دیا ہے اور من حیث القوم ہر وقت اس کی دلجوئی میں لگے رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وقت پڑنے پر یہ چوکیدار ’بیمار شمار‘ ہوجاتا ہے اور پھر نزلہ بلڈی سویلین پر گرتا ہے۔ ندیم صاحب کے بیان کردہ واقعات، کلاسر ا صاحب کی دی ہوئی مثال سے یہ تو واضح ہے کہ فوجی افسر اپنی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں کی پردہ پوشی ہمارے اسی خوف کی آڑ میں کرتے ہیں کہ ’مورال گرنے سے دشمن حملہ آور‘ ہو سکتا ہے۔ میں تو یہی کہونگا کہ شوق اور ہمت ہے تو ’ہور چوپو‘
    • سلیم منڈ ھیرا 19 December 2011 at 9:01 pm #
      تسان آپڑین جما ت آلی ٹر ینگ نئن بھلیے
  18. Usman Shafique 18 December 2011 at 7:49 pm #
    کیا فوج کی اصلاح ہو سکتی ہے جب بھی فوج کی کسی غلطی کی نشاندہی کی جاے میڈیا میں موجود کچھ لوگ فورا یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ وقت مناسب نہیں کیا روف کلاسرا صاحب اس پر بھی کچھ ارشاد فرمایں گے اور ہاں یار آیا خواجہ شریف قتل سازش کیس میں آپ کی صحافی دوست نے جو بیان عدالتی کمیشن کے سامنے ریکارڈ کرایا تھا وہ کب سامنے آے گا
  19. خالد رشید 18 December 2011 at 9:03 pm #
    زبردست ہے۔۔۔۔۔۔۔
  20. على 18 December 2011 at 10:15 pm #
    ان كي مورال كا ماءي فوٹ۔۔۔۔۔۔۔اگر فوج ني يه هي كرنا هي تو كيا فاءده مورال كا عوام كل مورال بس ڈاون هو
  21. اجنبی 19 December 2011 at 1:03 am #
    میرے پیارے بھائیو! ھم عوام ھمیشہ سے قربانی کا بکرا رہے ہیں۔
    ٹی وی کے ٹاک شو دیکھ لیں،کیا کوئی کھل کر فوجی جرنیلوں پر بات کرتا ہے؟ انہوں نے فوجی سپاہیوں کوڈسپلن کے نام پر اور عوام کو مورال کے نام پر الو بنایا ہوا ہے۔
    پتہ نہیں کب ان سے ہماری جان چھوٹے گی؟
  22. asif khan 19 December 2011 at 1:33 am #
    just check in FATA army destroy the Homes of Poor people for Dollars
    and Blaming US drone . All contractors are the relatives of army generals in FATA.
    they killed many tribels leaders for their game … but Remember the people of FATA not forgetting
    any things .the right time is coming .this army gerels destroying pakistan for their own interests
    and their main supporter is middle class Punjabis
  23. خاور کھوکھر 19 December 2011 at 2:25 am #
    ميں نے فوج کے خلاف بات کرکے فوج کو اپنا مورال بلند رکھنے کے لیے خود کو مسنگ پرسن نهیں بوانا چاهتا
    اس لیے میں کهےں گا که اپ کی یه تحریر پاک فوج کے مورال کے لیے ایک خطره هے
  24. طا ہر کر یم 19 December 2011 at 2:11 pm #
    ندیم ساھب آپ کو یاد ہو میں ڈان ک لیے بہاول نگر مین کام کرتا تہانیوی کے جرنل کی زمین کو بعیر باری پانی دینے پر گاون والون اور پولس والون کو جس طرھ مارا تہا اور دان مین رپورت آنے پر جو دباو تہا آج بہی یاد ہے
  25. طا ہر کر یم 19 December 2011 at 2:13 pm #
    یہ 2002 ہا 2001 کی بات ھے
  26. another.man_88 19 December 2011 at 4:25 pm #
    اعل ندیم صاحب
  27. وقارعلی 19 December 2011 at 6:31 pm #
    فوج روگ ادارہ بن چکی ہے ، جب جہاں چاہا مار دیا اور لوٹ لیا۔لیکن جناب ہمارے بہت سے صحافی بھی کدورت رکھتے ہیں فوج سے اور اپنے زاتی تجربے اور مسایل کی وجھ سے ان کے خلاف لکھتے ہیں جو صحافتی اصولوں کے خلاف ہے لیکن ٹاپ سٹوری میں کچھ لوگوں کے فوج کی طرح اپنے اصول مفاد اور نام نہاد نظریات ہے- صوبوں کی رٹ لگاتے ہیں جناب یہ نظام ہی فیل ہے لوگوں میں شعور اور فرسودہ نظام کے خلاف سوح پیدا کریں کچھ مثبت کرنے کی سوچیں جو بہت مشکل اور کٹھن راستہ ہے جس میں شہرت اور واہ واہ نہیں ہے- اپ اہسا نہیں کرہں گہں اپ کو وہ شہرت نہیں ملے گی جو جزبات کو بھڑکانے کے ازمودہ طریقوں سے ملتی ہے-

with courtesy of TopStoryOnline


Comments

Popular posts from this blog

Spain's nuclear legacy

sql joins